loader image

MOJ E SUKHAN

احمد محفوظ

پروفیسر احمد محفوظ کا آبائی تعلق شہر الہ آباد سے ہے۔ انھوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اردو میں گولڈ میڈل حاصل کیا، اور بعد ازاں جواہرال نہرو یونیورسٹی دہلی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وہ 1992 سے جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہ اردو سے بحیثیت استاد وابستہ ہیں، اور اس وقت صدر شعبہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ احمد محفوظ کی دلچسپی کا خاص میدان کلاسیکی اردو فارسی شاعری اور شعریات ہے۔ انھوں نے میر تقی میر کے مکمل کلام کی تصیح و ترتیب کا کام شمس الرحمن فاروقی کی نگرانی میں انجام دیا، جسے کلام میر کا اب تک کا سب سے بہتر ایڈیشن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ احمد محفوظ نے اکبر الہ آبادی کے کلیات کو بھی
نئے سرے سے مرتب کیا ہے۔ کلاسیکی اور جدید شاعری کے معتبر ماہر کے علاوہ احمد محفوظ جدید غزل گو کی حیثیت سے بھی اپنی نمایاں شناخت رکھتے ہیں۔ان کا مجموعہ کلام ‘غبار حیرانی’ حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے، جسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ احمد محفوظ کی علمی اور ادبی تربیت میں اردو کے نمایاں ترین عالم اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ احمد محفوظ, فاروقی صاحب کو اپنا معنوی استاد مانتے ہیں۔ احمد محفوظ کے تحقیقی اور تنقیدی مضامین ملک اور بیرون ملک کے موقر رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انھیں کئی قابل ذکر ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری

غزل   کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری مدت ہوئی کچھ بھی نہ خبر آئی ہماری اس دشت گم آثار میں آنے کے نہیں ہم ہے اور کہیں بادیہ پیمائی ہماری اس راہ سے ہم بچ کے نکل آئے وگرنہ بیٹھی تھی کمیں گاہ میں رسوائی ہماری رہ رہ کے جو تصویر چمکتی ہے […]

کیا جانے کہاں لے گئی تنہائی ہماری Read More »

سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے

غزل سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے اور پھر خود ہی تہ خاک چھپاتا ہے مجھے کب سے سنتا ہوں وہی ایک صدائے خاموش کوئی تو ہے جو بلندی سے بلاتا ہے مجھے رات آنکھوں میں مری گرد سیہ ڈال کے وہ فرش بے خوابئ وحشت پہ سلاتا ہے مجھے گم شدہ میں

سر بسر پیکر اظہار میں لاتا ہے مجھے Read More »

بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے

غزل بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے تو پھر یہ خواب کنارہ کہاں سے ملتا ہے یہ دھوپ چھاؤں سلامت رہے کہ تیرا سراغ ہمیں تو سایۂ ابر رواں سے ملتا ہے ہم اہل درد جہاں بھی ہیں سلسلہ سب کا تمہارے شہر کے آشفتگاں سے ملتا ہے جہاں سے کچھ نہ ملے

بدن سراب نہ دریائے جاں سے ملتا ہے Read More »

ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم

غزل ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم پکارتی رہی دنیا مگر نہیں گئے ہم اگرچہ خاک ہماری بہت ہوئی پامال برنگ نقش کف پا ابھر نہیں گئے ہم حصول کچھ نہ ہوا جز غبار حیرانی کہاں کہاں تری آواز پر نہیں گئے ہم منا رہے تھے وہاں لوگ جشن بے خوابی

ادھر سے آئے تو پھر لوٹ کر نہیں گئے ہم Read More »

یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے

غزل یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے گہرائی میں کیوں نہ اتر کر دیکھا جائے تیز ہوائیں یاد دلانے آئی ہیں نام ترا پھر ریت پہ لکھ کر دیکھا جائے شور حریم ذات میں آخر اٹھا کیوں اندر دیکھا جائے کہ باہر دیکھا جائے گاتی موجیں شام ڈھلے سو جائیں گی بعد میں

یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے Read More »

آیا ہی نہیں کوئی بوجھ اپنا اٹھانے کو

غزل آیا ہی نہیں کوئی بوجھ اپنا اٹھانے کو کب تک میں چھپا رکھتا اس خواب خزانے کو دیکھا نہیں رخ کرتے جس طرف زمانے کو جی چاہتا ہے اکثر اس سمت ہی جانے کو یہ شغل زبانی بھی بے صرفہ نہیں آخر سو بات بناتا ہوں اک بات بنانے کو اس کنج طبیعت کی

آیا ہی نہیں کوئی بوجھ اپنا اٹھانے کو Read More »

کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے

غزل کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے ہمیں ہوا کی زد میں تھے ہمیں شکار ہو گئے سیاہ دشت خار سے کہاں دو چار ہو گئے کہ شوق پیرہن تمام تار تار ہو گئے یہاں جو دل میں داغ تھا وہی تو اک چراغ تھا وہ رات ایسا گل ہوا کہ شرمسار

کسی سے کیا کہیں سنیں اگر غبار ہو گئے Read More »

کسی کا عکس بدن تھا نہ وہ شرارہ تھا

غزل کسی کا عکس بدن تھا نہ وہ شرارہ تھا تو میں نے خیمۂ شب سے کسے پکارا تھا کہاں کسی کو تھی فرصت فضول باتوں کی تمام رات وہاں ذکر بس تمہارا تھا مکاں میں کیا کوئی وحشی ہوا در آئی تھی تمام پیرہن خواب پارہ پارہ تھا اسی کو بار دگر دیکھنا نہیں

کسی کا عکس بدن تھا نہ وہ شرارہ تھا Read More »

چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا

غزل چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا اپنا تو سب کے ہاتھوں خسارہ بہت ہوا کیا بے سبب کسی سے کہیں اوبتے ہیں لوگ باور کرو کہ ذکر تمہارا بہت ہوا بیٹھے رہے کہ تیز بہت تھی ہوائے شوق دشت ہوس کا گرچہ ارادہ بہت ہوا آخر کو اٹھ گئے تھے جو اک

چھوڑو اب اس چراغ کا چرچا بہت ہوا Read More »

کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا

غزل کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا ورنہ ہمیں اس کوچے میں آنا ہی نہیں تھا ہنگامۂ وحشت تھا جہاں جشن جنوں میں دیکھا تو وہاں کوئی دوانہ ہی نہیں تھا وہ دل کی لگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی کل رات گلے اس کو لگانا ہی نہیں تھا ملتا ہے تو اب

کیا کرتے کہیں اور ٹھکانہ ہی نہیں تھا Read More »