loader image

MOJ E SUKHAN

توقیر تقی

توقیر تقی کراچی شہر میں مقیم ہیں عمدہ غزل کہتے ہیں مگر ان کی شہرت کی وجہ سلام منقبت اور نوحہ ہے یہی سبب ہے کہ کراچی کا ایک بڑا ادبی حلقہ انہیں شاعرِ اہلِ بیت کا درجہ دیتا ہے

خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا

غزل خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا عشق کا بوجھ بھی مٹی سے اٹھا ہجر تھا بار امانت کی طرح سو یہ غم آخری ہچکی سے اٹھا لو ترے بعد بڑھی اشکوں کی شعلۂ عشق بھی پانی سے اٹھا دل نے آباد کیا عشق آباد خاک ہو کر اسی بستی سے اٹھا دل اسی درد […]

خاک ہوتی ہوئی ہستی سے اٹھا Read More »

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا

غزل کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا میں شاخ عصر پہ بیٹھا ہوا پرندہ تھا بدن میں دل تھا معلق خلا میں نظریں تھیں مگر کہیں کہیں سینے میں درد زندہ تھا پھر ایک رات مجھی پر جھپٹ پڑا مرا ضبط جسے میں پال رہا تھا کوئی درندہ تھا خوشی نے ہاتھ بڑھایا

کہیں شعور میں صدیوں کا خوف زندہ تھا Read More »

یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے

غزل یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے دل جو اس وقت مرے ہات سے نکلا ہوا ہے مڑ کے دیکھے بھی تو پتھر نہیں ہوتا کوئی جانے کیا شہر طلسمات سے نکلا ہوا ہے رات یہ کون سا مہمان مرے گھر آیا سارا گھر حلقۂ آفات سے نکلا ہوا ہے حجرۂ ہجر

یاد اور غم کی روایات سے نکلا ہوا ہے Read More »

موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے

غزل موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے دریا کے سارے رنگ مری تشنگی میں آئے پھر ایک روز آن ملا ابر ہم مزاج مٹی نمو پذیر ہوئی تازگی میں آئے دامن بچا رہے تھے کہ چہرہ بھی جل گیا کس آگ سے گزر کے تری روشنی میں آئے یہ میں ہوں میرے

موج خیال میں نہ کسی جل پری میں آئے Read More »

پری اڑ جائے گی اور راجدھانی ختم ہوگی

غزل پری اڑ جائے گی اور راجدھانی ختم ہوگی یہ آنکھیں بند ہوتے ہی کہانی ختم ہوگی کسی صندوق میں دیمک زدہ خط دیکھتے ہی کہا دل نے اب اس کی ہر نشانی ختم ہوگی اسے یہ شوق گہری دھند لپٹے ہر شجر سے مجھے یہ فکر کیسے بد گمانی ختم ہوگی خبر کب تھی

پری اڑ جائے گی اور راجدھانی ختم ہوگی Read More »

کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی

غزل کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی روشنی پہلے نہ تھی دل کی فضا میں ایسی اور پھر اس کے تعاقب میں ہوئی عمر تمام ایک تصویر اڑی تیز ہوا میں ایسی جیسے ویران حویلی میں ہوں خاموش چراغ اب گزرتی ہیں ترے شہر میں شامیں ایسی آنکھ مصروف ہے زنبیل ہنر

کوئی تاثیر تو ہے اس کی نوا میں ایسی Read More »

بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ

غزل بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ بدل گئے مجھے تبدیل کرنے والے لوگ ابد تلک کے مناظر سمیٹ لیتے ہیں ذرا سی آنکھ کو زنبیل کرنے والے لوگ تمہی بتاؤ تمہیں چھوڑ کر کدھر جائیں تمہاری بات کی تعمیل کرنے والے لوگ کسے بتائیں کہ شاخ صلیب کون سی ہے یہ پات

بدن میں روح کی ترسیل کرنے والے لوگ Read More »

درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے

غزل درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے اس مکاں میں کچھ نہیں ہے عشق ہے دیکھ دشت یاد کا اعجاز دیکھ میں کہیں ہوں تو کہیں ہے عشق ہے تھک کے بیٹھا ہوں جو کنج ذات میں مہرباں کوئی نہیں ہے عشق ہے جو ازل سے ہجرتی ہیں اشک ہیں جو ان اشکوں

درد جب سے دل نشیں ہے عشق ہے Read More »

صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی

غزل صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی غم کی حدت سے پگھلتا نہیں تو بھی میں بھی اب زمانے میں محبت ہے تماشے کی طرح اس تماشے سے بہلتا نہیں تو بھی میں بھی ان سلگتی ہوئی سانسوں کو نہیں دیکھتے لوگ اور سمجھتے ہیں کہ جلتا نہیں تو بھی میں بھی اپنا

صورت عشق بدلتا نہیں تو بھی میں بھی Read More »

روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں

غزل روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں اشک بچوں کی طرح گھر سے نکل جاتے ہیں سبز پیڑوں کو پتہ تک نہیں چلتا شاید زرد پتے بھرے منظر سے نکل جاتے ہیں اس گزر گاہ محبت میں کہاں آ گیا میں دوست چپ چاپ برابر سے نکل جاتے ہیں تم تراشے ہوئے

روٹھ کر آنکھ کے اندر سے نکل جاتے ہیں Read More »