loader image

MOJ E SUKHAN

عالم نظامی

اردو مشاعروں کے حوالے سے شہرت پانے والے شاعر عالم نظامی کا اصلی نام شاہ محمد اور ان کے والد کا نام مرحوم غلام حسین شاہ نظامی ہے آپ کا تعلق ضلع بلرام پور سے ہے جو بھارت کے صوبے اتر پردیش میں واقع ہے آپ یکم جنوری 1984 کو چندہ پور گاؤں ضلع بلرام پورمیں پیدا ہوئے-آپ ایک بہترین شاعر و ادیب کے ساتھ ساتھ بہت اچھے نثر نگار بھی ہیں ہندوستان کے مختلف شعرا پر آپ کے مضامین اردو اخبار و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔آپ کی وجہ شہرت اردو غزلوں کے ساتھ ساتھ حمدیہ ونعتیہ شاعری بھی ہے آپ ویسے تو کئ اصناف ادب میں طبع آزمائی کر چکے ہیں لیکن صنف غزل آپ کی پسندیدہ صنف ہے دم تحریر موصوف کے غزل اور حمدو نعت کے شعری مجموعے  طباعت کے مراحل میں ہیں انشاءاللہ زیور طبع سے آراستہ ہوکر بہت جلد منظر عام پر آجائیں گے عالم نظامی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے مدرسے میں حاصل کی اس کے بعددارالعلوم محبوب سبحانی، کرلا ممبئی میں شعبئہ حفظ میں داخلہ لیا، آپ کسی وجہ سے تعلیمی سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے اور قرأت کی دستار و سند حاصل کرنے کے بعد کاروبار میں مصروف ہوگئے ،آپ ابتدا میں شاہ محمد کیفی کے نام سے متعارف ہوئے بعد میں اردو مشاعروں میں عالم نظامی کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقریباً بیس سال کی عمرسے با قاعدہ اردو مشاعروں میں آپ کی شرکت ہورہی ہے اب تک بھارت کے مختلف صوبوں اور علاقوں کے مشاعروں میں آپ ایک شاعر کی حیثیت سے شریک ہوکر سرمایۂ داد و تحسین وصول کر چکے ہیں 2013 میں آپ کو ادبی خدمات کے اعتراف میں علمی ادبی شعری اعزاز (منجانب ) مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی سے بھی نوازا جا چکا ہے

بیاں غیروں سے اپنا غم کریں کیا

غزل بیاں غیروں سے اپنا غم کریں کیا نمک کو زخم کا مرہم کریں کیا نئے موسم کے خاکے ہیں نظر میں گذشتہ فصل کا ماتم کریں کیا اترتا ہی نہیں ہے اس کا جادو بتاؤ خود پہ پڑھ کر دم کریں کیا اسے ہم کس طرح دل سے نکالیں یہ دل سنتا نہیں تو […]

بیاں غیروں سے اپنا غم کریں کیا Read More »

گھر میں آرام کا سایہ نہیں رہنے دیتی

غزل گھر میں آرام کا سایہ نہیں رہنے دیتی اب تو تنہائی بھی تنہا نہیں رہنے دیتی مفلسی کتنی خطرناک ہے تم کیا جانو یہ سلامت کوئی رشتہ نہیں رہنے دیتی یہ تو اچھا ہوا سانسوں پہ نہیں بس اس کا ورنہ دنیا مجھے زندہ نہیں رہنے دیتی چاہتی کیا ہے یہ آوارہ مزاجی میری

گھر میں آرام کا سایہ نہیں رہنے دیتی Read More »

ایسا لگتا ہے وہ نادان سمجھتے ہیں مجھے

غزل ایسا لگتا ہے وہ نادان سمجھتے ہیں مجھے جو بھی تفریح کا سامان سمجھتے ہیں مجھے خیریت بھی مری معلوم نہیں کرتے ہیں اسقدر لوگ پریشان سمجھتے ہیں مجھے شہر سے آؤ تو آنے کا سبب پوچھتے ہیں گاؤں کے لوگ بھی مہمان سمجھتے ہیں مجھے اس لئے میری خوشامد نہیں کرتا کوئی سب

ایسا لگتا ہے وہ نادان سمجھتے ہیں مجھے Read More »

سچائی کبھی اپنی صفائی نہیں دیتی

غزل سچائی کبھی اپنی صفائی نہیں دیتی محسوس تو ہوتی ہے دکھائی نہیں دیتی مظلوموں کی فریاد پہ لرزاں ہے فلک تک اور اہل سیاست کو سنائی نہیں دیتی یوں ظلم و تشدد کے اندھیرے ہیں کہ توبہ جینے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ہنس ہنس کے ستم فاقوں کے سہہ لیتی ہے لیکن

سچائی کبھی اپنی صفائی نہیں دیتی Read More »

ہمیں خبر ہے وہ کیوں ہم سے اب نہیں ملتا

غزل ہمیں خبر ہے وہ کیوں ہم سے اب نہیں ملتا یہاں کسی سے کوئی بے سبب نہیں ملتا پھر آفتاب کہاں اپنی روشنی بانٹے نئے چراغوں میں حسن طلب نہیں ملتا بتا رہی ہیں ادیبوں کے گھر کی تہذیبیں وراثتوں میں سبھی کو ادب نہیں ملتا میں جلنے لگتا ہوں تنہائیوں کے دوزخ میں

ہمیں خبر ہے وہ کیوں ہم سے اب نہیں ملتا Read More »

میرے خوابوں کو نگلنے کا ارادہ نہ کرے

غزل میرے خوابوں کو نگلنے کا ارادہ نہ کرے کہہ دو سورج سے نکلنے کا ارادہ نہ کرے اس سے بڑھ کر کوئی محتاج نہیں ہو سکتا گر کے جو شخص سنبھلنے کا ارادہ نہ کرے جو ہواؤں کے مزاجوں سے نہیں ہے واقف میرے ہم راہ وہ چلنے کا ارادہ نہ کرے گفتگو زہر

میرے خوابوں کو نگلنے کا ارادہ نہ کرے Read More »

چاندنی رات ہے میں ہوں مری تنہائی ہے

غزل چاندنی رات ہے میں ہوں مری تنہائی ہے یاد ایسے میں تری دل میں چلی آئی ہے وہ دغاباز ہے ظالم بڑا ہرجائی ہے پھر بھی یہ دل ہے کہ اس کا ہی تمنائی ہے وہ مری بزم تصور میں کچھ ایسے آئے جیسے جنت مرے آنگن میں اتر آئی ہے باغ فردوس ہے

چاندنی رات ہے میں ہوں مری تنہائی ہے Read More »

فرش مخمل پہ کبھی نیند نہ آئی مجھ کو

غزل فرش مخمل پہ کبھی نیند نہ آئی مجھ کو اتنی راس آئی مرے گھر کی چٹائی مجھ کو بات ساحل کی جو ہوتی تو سنبھل بھی جاتا اس نے منجدھار میں اوقات بتائی مجھ کو عزم پر میرے مسلط ہے جنوں منزل کا کیسے روکے گی مری آبلہ پائی مجھ کو جس نے جس

فرش مخمل پہ کبھی نیند نہ آئی مجھ کو Read More »

کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے

غزل کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے اور بھی ہیں مجھے سینے سے لگانے والے ناپتے کیسے مرے ظرف کی گہرائی کو ڈبکیاں خطۂ ساحل میں لگانے والے اے ہواؤ نہ کہیں ہاتھ جلا لو تم بھی بجھ گئے میرے چراغوں کو بجھانے والے جسم مر سکتا ہے آواز نہیں مرتی ہے

کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے Read More »

اس سے پہلے مری خواہش مجھے رسوا کر دے

غزل اس سے پہلے مری خواہش مجھے رسوا کر دے عزت نفس کو خالق مرے زندہ کر دے مجھ سے دنیا کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی میرے مالک میرے احساس کو اندھا کر دے دیکھ اچھا نہیں احباب کی غیبت کرنا یہ عمل تجھ کو کسی روز نہ تنہا کر دے آ نہ جائے

اس سے پہلے مری خواہش مجھے رسوا کر دے Read More »