loader image

MOJ E SUKHAN

مخدوم محی الدین

نام ابو سعید محمد مخدوم محی الدین حذری۔ ۴؍فروری ۱۹۰۸ء کو سنگاریڈی ، تعلقہ اندول ،ضلع میدک حیدرآباد ،دکن میں پیدا ہوئے۔ مخدوم نے قرآن شریف ختم کرنے کے بعد دینیات کی تعلیم پائی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔ ۱۹۳۴ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ۱۹۳۶ء میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۳۶ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں چند وجوہ کی بنا پر مستعفی ہوگئے۔ ۱۹۴۰ء میں مخدوم کمیونسٹ پارٹی کے سکریٹری منتخب ہوئے۔اس طرح ان کی سیاسی مصروفیتیں بہت بڑھ گئیں۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی رہنمائی میں ہوئی۔ ۱۹۵۶ء میں عام انتخابات کے موقع پر وہ آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اپنی وفات تک وہ اس کے رکن رہے۔ انھوں نے پابند اور آزاد نظمیں بھی لکھیں۔ قطعات، رباعی اور غزلوں میں بھی طبع آزمائی کی۔ زندگی کے آخری ایام میں مخدوم کو سینے اور حلق کی تکلیف تھی۔ وہ ۲۵؍اگست ۱۹۶۹ء کو دہلی میں انتقال کرگئے ۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: ’سرخ سویرا‘، ’گل تر‘، ’بساط رقص‘۔

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ

غزل ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ چاند اترا کہ اتر آئے ستارے دل میں خواب میں ہونٹوں پہ آیا ترا نام آہستہ کوئے جاناں میں قدم پڑتے ہیں ہلکے ہلکے آشیانے کی طرف طائر بام آہستہ ان کے پہلو کے مہکتے ہوئے شاداں جھونکے یوں چلے جیسے […]

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ Read More »

تم گلستاں سے گئے ہو تو گلستاں چپ ہے

غزل تم گلستاں سے گئے ہو تو گلستاں چپ ہے شاخ گل کھوئی ہوئی مرغ خوش الحاں چپ ہے افق دل پہ دکھائی نہیں دیتی ہے دھنک غمزدہ موسم گل ابر بہاراں چپ ہے عالم تشنگیٔ بادہ گساراں مت پوچھ مے کدہ دور ہے مینائے زر افشاں چپ ہے اور آگے نہ بڑھا قصۂ دل

تم گلستاں سے گئے ہو تو گلستاں چپ ہے Read More »

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب

غزل بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخر شب منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے اور چمکا ترا نقش کف پا آخر شب کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیر در مے خانہ کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخر شب سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں کوئی لیتا

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب Read More »

سحر سے رات کی سرگوشیاں بہار کی بات

غزل سحر سے رات کی سرگوشیاں بہار کی بات جہاں میں عام ہوئی چشم انتظار کی بات دلوں کی تشنگی جتنی دلوں کا غم جتنا اسی قدر ہے زمانے میں حسن یار کی بات جہاں بھی بیٹھے ہیں جس جا بھی رات مے پی ہے انہی کی آنکھوں کے قصے انہی کے پیار کی بات

سحر سے رات کی سرگوشیاں بہار کی بات Read More »

تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے

غزل تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے دار سے گزرے تری راہ گزر سے پہلے بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا سو گیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے اس اندھیرے میں اجالوں کا گماں تک بھی نہ تھا شعلہ رو شعلہ نوا شعلہ نظر سے پہلے کون جانے

تیرے دیوانے تری چشم و نظر سے پہلے Read More »

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے

غزل اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے ایک آنسو جو سر چشم وفا ہوتا ہے اس گزر گاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ عشق جز ترے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے دل کی محراب میں اک شمع جلی تھی سر شام صبح دم ماتم ارباب وفا ہوتا ہے دیپ

اب کہاں جا کے یہ سمجھائیں کہ کیا ہوتا ہے Read More »

ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا

غزل ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا ایک افسانہ تھا افسانے سے افسانہ بنا اک پری چہرہ کہ جس چہرے سے آئینہ بنا دل کہ آئینہ در آئینہ پری خانہ بنا خیمۂ شب میں نکل آتا ہے گاہے گاہے ایک آہو کبھی اپنا کبھی بیگانہ بنا ہے چراغاں ہی چراغاں سر عارض سر

ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا Read More »

وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں

غزل وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں ان کو لا لا کے بٹھایا گیا دیوانوں میں فصل گل ہوتی تھی کیا جشن جنوں ہوتا تھا آج کچھ بھی نہیں ہوتا ہے گلستانوں میں آج تو تلخیٔ دوراں بھی بہت ہلکی ہے گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں آج

وہ جو چھپ جاتے تھے کعبوں میں صنم خانوں میں Read More »

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے

غزل یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں نظر میں رقص بہاراں کی صبح و شام لیے ہجوم بادۂ و گل میں ہجوم یاراں میں کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے کسی خیال کی خوشبو کسی

یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے Read More »

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے

غزل عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے ہجر میں ملنے شب ماہ کے غم آئے ہیں چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے کوئی جلتا ہی نہیں کوئی پگھلتا ہی نہیں موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے چشم

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے Read More »