loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

20/08/2025 13:36

نقاش کاظمی

نقاش کاظمی 26 فروری 1944 کو یوپی کے شہرجون پور، انڈیا میں پیدا ہوۓ۔ انہیں کم عمری سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ وہ طالب علمی کے زمانے میں ہی شعر و ادب کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکے تھے اوران کے انقلابی اشعار ٹریڈ یونینز کے جلسے جلوسوں میں ان کے پوسٹرز اور بینرز پر نظر آنے لگے تھے۔ مثلا”
کرو نہ غم کہ ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
لہو کا تیل چراغوں میں ڈالنے کے لیۓ
دوران تعلیم وہ طالب علموں، مزدورں اور کسانوں کی بہبود کے لیۓ سرگرم رہے۔ 1968 کی عوامی تحریک جس میں مزدور، کسان، وکلاء، اساتذہ اور دیگر طبقات شامل تھے ان کا یہ شعر بہت مقبول ہوا جس پر جناب فیض احمد فیض نے بھی ایک
محفل میں انہیں خوب داد دی اور گلے سے لگا لیا۔
سروں کی فصل جو تیار ہے تو کیوں نہ کٹے
بہت ہے عہد جوانی تو کیوں ہو عمر دراز
اسی عوامی تحریک کے دوران جب نہتے طالب علموں کو خون میں نہلا دیا گیا تو ان کی ایک اور نظم ‘ شکست حوصلۂ شب ‘ منظر عام پرآئ جس میں وہ کہتے ہیں کہ :
یہی ہے شہر وفا میں دلیل آمد شب
نظارے جاں سے گۓ قتل آفتاب ہوا
بدل گئ ہیں کتابیں سبق کچھ اور ہوۓ
گرا ہے جتنا لہو شامل نصاب ہوا
ان کی شاعری اور نثر پر جو تصنیفات منظرعام پرآچکی ہیں ان میں چاندنی اور سمندر، رخ سیلاب ، رنگ سفر ، دامن گل ، افروایشیائ ادیبوں کے مسائل اور ان کا پس منظر ، آدھی زبان کا آدمی شامل ہیں۔ ان کی وہ کتابیں جو ابھی منظرعام پرنہیں آئیں ان میں میراث اورسرخیاں (ادبی تنقید) رنگ برنگ (بچوں کے لیۓ نظمیں) اس کے علاوہ تین سو مطبوعہ اورغیر مطبوعہ مضامین بھی شامل ہیں۔ انہیں تین بار صدارتی ایوارڈز سےبھی نوازا گیا۔ زندگی کے آخری لمحات میں وہ اپنے ایک نۓ شعری مجموعے’ سمندرم ‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ 31 جولائی 2021 کو ایک مختصرعلالت کے بعد کراچی میں انتقال کرگۓ۔