loader image

MOJ E SUKHAN

کفیل آزر امروہوی

کفیل آزر امروہوی تخلص :’آزر’ استعمال کرتے تھے پیدائش :23 Apr 1940 | امروہہ, اتر پردیش ہندوستان فلم نغمہ نگار ، اپنی نظم ’ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘ کے لئے مشہور، جسے جگجیت سنگھ نے آواز دی تھی

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو

غزل گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو میں یہاں اچھا نہیں ہوں تم وہاں اچھی تو ہو وقت رخصت بھیگے بھیگے ان دریچوں کی قسم نور پیکر چاند صورت گلستاں اچھی تو ہو تھرتھراتے کانپتے ہونٹوں کو آیا کچھ سکوں اے زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں اچھی تو ہو دھوپ نے جب آرزو […]

گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو Read More »

سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں

غزل سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں بہت جلنے لگا تھا جسم برفیلی چٹانوں میں کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں جنازہ میری تنہائی کا لے کر لوگ جب نکلے میں خود شامل تھا اپنی زندگی کے

سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں Read More »

یہ حادثہ بھی ترے شہر میں ہوا ہوگا

غزل یہ حادثہ بھی ترے شہر میں ہوا ہوگا تمام شہر مجھے ڈھونڈھتا پھرا ہوگا میں اس خیال سے اکثر اداس رہتا ہوں کوئی جدائی کی صدیاں گزارتا ہوگا چلو کہ شہر کی سڑکیں کہیں نہ سو جائیں اب اس اجاڑ حویلی میں کیا رکھا ہوگا تمہاری بزم سے نکلے تو ہم نے یہ سوچا

یہ حادثہ بھی ترے شہر میں ہوا ہوگا Read More »

آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے

غزل آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے وہ دریچہ تو مرے قد سے بہت اونچا ہے اپنے کمرے کو اندھیروں سے بھرا پایا ہے تیرے بارے میں کبھی غور سے جب سوچا ہے ہر تمنا کو روایت کی طرح توڑا ہے تب کہیں جا کے زمانہ مجھے راس آیا ہے تم کو

آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے Read More »

ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے

غزل ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے کتنی گزری ہوئی باتوں کا خیال آیا ہے قافلہ درد کا ٹھہرے گا کہاں ہم سفرو کوئی منزل ہے نہ بستی نہ کہیں سایا ہے ایک سہما ہوا سنسان گلی کا نکڑ شہر کی بھیڑ میں اکثر مجھے یاد آیا ہے یوں لیے پھرتا ہوں

ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے Read More »

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں

غزل کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں کیوں ترے ہجر کے منظر پہ ستم ڈھاتے ہیں زخم بھی دیتے ہیں اور خواب بھی دکھلاتے ہیں ہم بھی ان بچوں کی مانند کوئی پل جی لیں ایک سکہ جو ہتھیلی پہ سجا لاتے ہیں یہ تو

کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں Read More »

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا

غزل تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا آنکھوں میں سو رہا تھا اندھیرا تھکا ہوا سینے میں جیسے تیر سا پیوست ہو گیا تھا کتنا دل خراش اداسی کا قہقہہ یوں بھی ہوا کہ شہر کی سڑکوں پہ بارہا ہر شخص سے میں اپنا پتہ پوچھتا پھرا برسوں سے چل رہا ہے کوئی

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا Read More »

اداسی کا سمندر دیکھ لینا

غزل اداسی کا سمندر دیکھ لینا مری آنکھوں میں آ کر دیکھ لینا ہمارے ہجر کی تمہید کیا تھی مری یادوں کا دفتر دیکھ لینا تصور کے لبوں سے چوم لوں گا تری یادوں کے پتھر دیکھ لینا نجومی نے یہ کی ہے پیش گوئی رلائے گا مقدر دیکھ لینا نہ رکھنا واسطہ تم مجھ

اداسی کا سمندر دیکھ لینا Read More »

جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا

غزل جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس صرف وعدے آسمانی دے گیا خود سے

جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا Read More »

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

غزل یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد Read More »