آ جاؤ تم کو دیکھ لوں تھوڑا قریب سے
ناراض ہونا جرم ہے اپنے طبیب سے
بیگانگی نے تیری عطا کر دیں قوتیں
لڑنے لگا ہوں دیکھ میں اپنے نصیب سے
آ تو رہی ہو چھوڑ کے آسائشِ جہاں
کیا کر سکو گی وعدہ وفا تم غریب سے
ملنے لگی ہیں عشق میں رسوائیاں بہت
ملنا پڑے گا اب مجھے اپنے رقیب سے
اس وقت سارے پھول ہی نایاب ہو گئے
مانگا تھا ہم نے پھول فقط اک حبیب سے
برسوں گزر گئے ہیں یہی سوچتے ہوئے
کیوں کہہ رہا ہوں شعر عجیب و غریب سے
مدت کے بعد اس سے مرا سامنا ہوا
آنکھوں میں عکس تھے کئی اس کے مہیب سے
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ