غزل
آئیں گے وہ کبھی مگر زیست کا اعتبار کیا
لائے گا رنگ دیکھیے عالم انتظار کیا
اپنی خوشی نہ آئے ہیں اپنی خوشی نہ جائیں گے
ان کے حریم ناز میں ہم کو ہے اختیار کیا
قید قفس میں ہم نفس گزری ہو جس کی زندگی
اس کو خزاں کی کیا خبر جانے گا وہ بہار کیا
ہے یہ حیات جاوداں ہے یہی عیش سرمدی
ہیں جو وفا میں لذتیں جانے ستم شعار کیا
بازیٔ عشق ہار کر بیٹھے ہیں بے خبر سے ہم
سود ہے کیا زیاں ہے کیا نقد ہے کیا ادھار کیا
کشمکش حیات ہے رونق محفل حیات
دل کو ہمارے جیتے جی آئے گا پھر قرار کیا
موسم گل کے آتے ہی ہم تو اسیر ہو گئے
قید قفس ہے اے نظیرؔ حاصل نو بہار کیا
سعادت نظیر