Aaj Dunya hay dwani meri
غزل
آج دنیا ہے دِوانی میری
بس ؔمحبت ہے نشانی میری
اِک نیا رُوپ غزل کا ہے مِری
دیکھ لے شعلہ بیانی میری
لاکھ چاہوں کہ وہ سن لے لیکن
“کب وہ سنتا ہے کہانی میری”
ایک دریا کی طرح بہتی ہوں
بہتی لہروں میں روانی میری
اِس کو لافانی بنا دوں گی میں
زیست مانا کہ ہے فانی میری
اُس کی آنکھوں میں نمی دَر آئی
حالِ دل سن کے زبانی میری
ہے درخشاںؔ، یہ حقیقت اپنی
ہائے، یہ سوختہ جانی میری
درخشاں صدیقی
Darakhshan siddiqui