loader image

MOJ E SUKHAN

آفاق حاشر — روحانی اور جمالیاتی واردات کی گواہی

آفاق حاشر — روحانی اور جمالیاتی واردات کی گواہی

خانیوال سے تعلق رکھنے والے جواں فکر شاعر آفاق حاشر نے نئی اردو شاعری کو ایسا تازہ لہجہ دیا ہے، جو روایت سے جڑا بھی ہے اور اس سے الجھتا بھی ہے۔ اس کے اشعار میں جذبوں کی شدت، فکر کی گہرائی اور اظہار کی ندرت ایک ساتھ چلتی ہے۔ وہ محض غزل کی زمین میں چلنے والا شاعر نہیں، بلکہ اس کے آسمان میں اڑنے والے پرندے بھی ہیں۔
آفاق کی شاعری میں محبت ایک پناہ بھی ہے اور آزمائش بھی۔ اس کے مصرعے داخلی کشمکش، سماجی ناہمواری اور جذباتی ارتعاش کی پوری تصویر بن کر ابھرتے ہیں۔
میں لفظِ کن کی وجوہات جاننے نکلا
یہ کائنات مجھے آپ کی طرف لائی
— یہ اشعار صرف ایک تخیلاتی سفر نہیں، یہ ایک روحانی و جمالیاتی واردات کی گواہی ہیں۔
اس کی غزلوں میں تنہائی قید خانے کی صورت بھی ہے اور اس قید میں آ کر تتلیاں بھی پروان چڑھتی ہیں۔
قید خانے کی طرف روز چلی آتی ہے
ایک تتلی مری زنجیر پہ بوسہ دینے
آفاق کے ہاں ہجر ایک فطری کیفیت ہے، لیکن وہ اسے کسی رومانی تمثیل تک محدود نہیں رکھتا، بلکہ اس میں روح کی گہرائی، رشتوں کی پیچیدگی اور وقت کی تلخی بھی گھول دیتے ہیں:
اب محبت کا کوئی خواب نہیں آ سکتا
ہم بلاؤں سے حفاظت کی دعا پڑھتے ہیں
اس کے اشعار صرف محبت کی روداد نہیں، بلکہ سماج، صنف، رشتے اور شخصی تقدیر پر ایک نوجوان ذہن کی گہری، سلگتی ہوئی رائے بھی ہیں:
آب و ہوا ہے مرد کے زیرِ اثر تبھی
عورت پہ انتخاب کا رستہ نہیں کھلا
آفاق کی غزلوں میں الفاظ، سوال بن کر ابھرتے ہیں اور قاری کو اس کے اپنے اندر اتار دیتے ہیں:
میں تو مجنوں سے تعلق پہ بضد ہوں لیکن
دشت کہتا ہے کوئی نام و نسب ہے ترے پاس؟
ایسا شاعر جس کی شاعری میں محبت دعا بن کر بھی آتی ہے اور مجبوری پر قہقہہ بن کر بھی ٹھہر جاتی ہے — یقیناً وہ عہد آئندگاں کے نمائندہ لہجوں میں شامل ہے۔
آفاق حاشر کو نئی نسل کی شعری آوازوں میں خوش آمدید۔
میں لفظِ کن کی وجوہات جاننے نکلا
یہ کائنات مجھے آپ کی طرف لائی
۔۔۔۔۔۔۔
مرا قیام ترے دل میں مختصر ہوگا
مجھے یہ خوف ترے اطمینان سے آیا
۔۔۔۔۔۔۔
چراغ کہتے رہے رات کے مسافر سے
ہمیں پکار ہمی آخری وسیلہ ہیں
۔۔۔۔۔۔
اب محبت کا کوئی خواب نہیں آ سکتا
ہم بلاؤں سے حفاظت کی دعا پڑھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
ہم ایک ساتھ ہیں اور ٹھیک راستے پر ہیں
بچھڑ کے مجھ سے غلط راستہ نہ چن لینا
۔۔۔۔۔۔۔
میں تو مجنوں سے تعلق پہ بضد ہوں لیکن
دشت کہتا ہے کوئی نام و نسب ہے ترے پاس؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک شکل نہیں بھولتی کسی صورت
بہت سے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔۔
قید خانے کی طرف روز چلی آتی ہے
ایک تتلی مری زنجیر پہ بوسہ دینے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے ہنس کے دکھایا ہے سو چپ ہوں ورنہ
قہقہہ بنتا نہیں تھا مری مجبوری پر
۔۔۔۔۔۔۔
ان دنوں بھی میں ترے واسطے آ جاتا تھا
جب مجھے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی
۔۔۔۔۔۔۔
تو نے توڑے ہیں کتنے سادہ دل
چائے خانوں میں کتنی رونق ہے
۔۔۔۔۔۔۔
سفر بخیر مرے دوست ! اس نے اتنا کہا
سفر میں خیر نہیں تھی سفر بخیر ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح کر مری بینائی معطل کر دے
کاتبِ ہجر ترے ہاتھ ہے تقدیر مری
۔۔۔۔۔۔۔۔
درحقیقت ادب آداب کی حق دار بنے
میری بیٹی تری چادر مری دستار بنے
۔۔۔۔۔۔۔
آب و ہوا ہے مرد کے زیر_ اثر تبھی
عورت پہ انتخاب کا رستہ نہیں کھلا
۔۔۔۔۔۔۔
لوگ میری بات پر حیران ہوتے ہوتے ہی نہ تھے
اور پھر اک دن مجھے حیران کرنا آگیا
بس اسے جاتے ہوئے تکنا بہت دشوار تھا
پھر مجھے ہر کام ہی آسان کرنا آ گیا
۔۔۔۔۔۔۔
تمھارے ہجر کی لمبی اداس راتوں میں
چراغ ہم کو جلاتے ہیں ہم چراغوں کو
۔۔۔۔۔۔۔
مخلصی باعث_ اذیت ہے
کاش ہم لوگ بے وفا ہوتے
کوئی بھر راستہ نکل آتا
کیا ضروری تھا ہم جدا ہوتے
۔۔۔۔۔۔۔
پلٹ کے سارے حقیقت می سمت جاتے ہیں
سو میں بھی پہلی محبت کی سمت لوٹ گیا
۔۔۔۔۔۔۔
پھر مجھے آنے لگی خیر سے دنیا کی سمجھ
پہلے پہلے میں پریشان ہوا کرتا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی سے ربط بڑھایا نہ بات کی میں نے
تمام عمر بہت احتیاط کی میں نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔