آنکھ کی قسمت ہے اب بہتا سمندر دیکھنا
اور پھر اک ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنا
۔
شام ہو جائے تو دن کا غم منانے کے لیے
ایک شعلہ سا منور اپنے اندر دیکھنا
۔
روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا
اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا
۔
سنگ منزل استعارہ سنگ مرقد کا نہ ہو
اپنے زندہ جسم کو پتھر بنا کر دیکھنا
۔
کیسی آہٹ ہے پس دیوار آخر کون ہے
آنکھ بنتا جا رہا ہے روزن در دیکھنا
۔
ایسا لگتا ہے کہ دیواروں میں در کھل جائیں گے
سایۂ دیوار کے خاموش تیور دیکھنا
۔
اک طرف اڑتے ابابیل اک طرف اصحاب فیل
اب کے اپنے کعبۂ جاں کا مقدر دیکھنا
۔
صفحۂ قرطاس ہے یا زنگ خوردہ آئینہ
لکھ رہے ہیں آج کیا اپنے سخن ور دیکھنا
حمایت علی شاعر