Aankhoo Main aitakaaf ka haq bhi nahi mujhay
غزل
آنکھوں میں اعتکاف کا حق بھی نہیں مجھے
کیا خواب کے طواف کا حق بھی نہیں مجھے
کیا مجھ میں ایک دل کا دھڑکنا بھی جرم ہے
کیا عین شین قاف کا حق بھی نہیں مجھے
پاؤں کا ساتھ دیتی نہیں سر زمینِ خاک
اور سیرِ کوہ کاف کا حق بھی نہیں مجھے
میری ہر ایک بات سے ہے اُس کو انحراف
وہ جس سے اختلاف کا حق بھی نہیں مجھے
رکھنا ہے مجھ کو عشق میں ہر لفظ کا خیال
اس بحر میں زحاف کا حق بھی نہیں مجھے
جانے بغیر جرم کے دیتا ہے وہ سزا
مجرم ہوں اعتراف کا حق بھی نہیں مجھے
اشکوں سے بھانپ لیتی ہے یہ خلقِ بے لحاظ
سو غم کے انعطاف کا حق بھی نہیں مجھے
زہرا بتول ہجر کی جاری ہے آب و تاب
اور اس میں ایتلاف کا حق بھی نہیں مجھے
زہرا بتول زہرا
Zehra Batool Zehra