Aankhoon Main Intizar ka ik Dar khula Howa
غزل
آنکھوں میں انتظار کا اک در کھلا ہوا
اور اس کے پار میں ہوں مرا دل بجھا ہوا
کرنے لگا ہے شور عجب پتلیوں کا دل
کیونکہ ہے اس پہ وصل کا لمحہ رکا ہوا
میں نے تو مان رکھا تھا خاموشیوں کا بس
اندر سے شور کس لیے میرے بپا ہوا
یہ انتہائے عشق ہے یا وجد ہے کہ جوگ
سر آسماں کو چھونے لگا یہ جھکا ہوا
ہم مصلحت کے نام پہ خاموش کیا ہوئے
جس کو بھی دیکھو اپنے تئیں وہ خدا ہوا
دل کو اٹھا کے دشتِ تمنا میں کیا دھرا
ہر زخم فیض پاتے ہوئے لا دوا ہوا
کچھ اس لیے بھی عمر ہوئی رتجگوں کے نام
کیونکہ وہ آشنا مرا نا آشنا ہوا
میں عین شین قاف کو بس جوڑتا رہا
اور زندگی کا راستہ مجھ سے جدا ہوا
دیکھا تھا اپنے آپ کو اک بار غور سے
آنکھوں میں حسرتوں کا ہے تانتا لگا ہوا
میری زباں پہ موجِ نسیمی کا ذکر تھا
کیوں زندگی کا آئینہ مجھ سے خفا ہوا
نسیم شیخ
Naseem Shaikh