Awazoo kay shoor say bachna Parta Hay
غزل
آوازوں کے شور سے بچنا پڑتا ہے
سیدھا پیر رکھوں تو الٹا پڑتا ہے
اپنے آپ کو واپس لا سکتی ہوں میں
لیکن تیرا نام بلانا پڑتا ہے
چپہ چپہ جال بچھائے دشمن نے
سنبھل سنبھل کر قدم اٹھانا پڑتا ہے
اس پر پیار کا جادو کرتے ڈرتی ہوں
میرا پھونکا منتر الٹا پڑتا ہے
عشق نہیں بکتا سستے بازاروں میں
یہ سودا تو ہر جا مہنگا پڑتا ہے
ایک کنارہ میرا اور اک جہلم کا
ہم دونوں کے بیچ میں صحرا پڑتا ہے
یعنی اس تک جانے کو مرنا ہوگا
یہ رستہ تو اور بھی لمبا پڑتا ہے
فرح گوندل
Farah Gondal