آگ بجھ جائے بھی تو اس کا دھواں بولتا ہے
جیسے زنجیر کا پاؤں پہ نشاں بولتا ہے
غم خد و خال سے جب ہو کے عیاں بولتا ہے
ایسا لگتا ہے مکیں چپ ہے، مکاں بولتا ہے
تو نے سیکھا ہے کہاں سے یہ پرایا لہجہ
اے مرے دوست تو اب کس کی زباں بولتا ہے
اس کے معنی کو سمجھتا ہے کوئی صاحبِ دل
اشک رخسار پہ جب ہو کے رواں بولتا ہے
ایک قرآن ہے جو غارِ حرا میں اترا
ایک وہ ہے جو سرِ نوکِ سناں بولتا ہے
صاحب منبر و مسند کی خبر ہے ہم کو
یہ بھی معلوم ہے کیا، کون، کہاں بولتا ہے
چھوڑ جائیں گے صغیر اب تجھے سارے اپنے
یہ جو تو بھول کے سب سود و زیاں بولتا ہے
(صغیر احمد صغیر)