Aaya na kabhi jeena Hamain Nazrain jhuka kar
غزل
آیا نہ کبھی جینا ہمیں نظریں جھکا کر
رکھا ہے سر دار بھی سر ہم نے اٹھا کر
آساں ہے بہت عہد وفا توڑ کے جانا
ہم نے تو نبھایا ہے اسے خود کو مٹا کر
لڑنا ہے شب ہجر کے لشکر سے ہمیشہ
آغاز کریں گے کسی جگنو کو اڑا کر
آتا ہے جفا کیش کبھی پاس تمہارے
پوچھا کیے ہم باغ کے ہر پتے سے جا کر
اے گردشِ دوراں ہمیں جتنا بھی دیا ہے
رکھا ہے سدا بار وہ کاندھوں پہ اٹھا کر
جانا ہے تو جا چھوڑ کے تو سیل بلا میں
کب عہد میں شامل تھا سدا مجھ سے وفا کر
کہتے ہیں مجھے آبلہ پا دشت نورداں
چلتا ہوں سدا بار محبت کا اٹھا کر
اس دل نے گزاری ہے اسی طور پہ تابشِ
ہر آن لڑا شب سے یہ گھر اپنا جلا کر
شہزاد تابشِ
Shahzad Tabish