24/02/2025 09:41

اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا

اب تو اپنے جسم کا سایہ بھی بیگانہ ہوا
میں تری محفل میں آکر اور بھی تنہا ہوا

وقفِ دردِ جاں ہوا ،حوِ غمِ دنیا ہوا
دل عجب عجب شے ہے کبھی قطرہ ہوا دریا ہوا

تیری آہٹ کے تعاقب میں ہوں صدیوں سے رواں
راستوں کے پیچ و خم میں ٹھوکریں کھاتا ہوا

اب تو تیرے حسن کی ہر انجمن میں دھوم ہے
جس نے میرا حال دیکھا تیرا دیوانہ ہوا

آگ کے سیلاب نے گھیرا ہے سارے شہر کو
ایک رستہ بھی نظر آتا نہیں بچتا ہوا

لذتِ دیدار کی اے ساعتِ رخشاں ٹھہر
پڑھ رہا ہوں میں ترے چہرے پہ کچھ لکھا ہوا

وہ سمے رخصت ہوئے ہمدم وہ شامیں کھو گئیں
کن خیالوں کے جھمیلوں میں ہے تو الجھا ہوا

جمیل یوسف

مزید شاعری