غزل
اب تو چراغ فکر جلاتا نہیں کوئی
سوز یقیں کی بزم سجاتا نہیں کوئی
پتھراؤ ہو رہا ہے ہمارے مکان پر
کیا جرم ہو گیا ہے بتاتا نہیں کوئی
اپنے پڑوسیوں کی حفاظت کے واسطے
راتوں کی میٹھی نیند گنواتا نہیں کوئی
غم تو کہانیوں کی طرح سب نے سن لیا
لیکن کوئی علاج بتاتا نہیں کوئی
جب سے تری گلی کا پتا مل گیا ہمیں
شہر ہوس کی سمت بلاتا نہیں کوئی
آبادیوں میں گھر کا بنانا تو سہل ہے
ویران بستیوں کو بساتا نہیں کوئی
تابش مہدی