Abh kay baras Hontoo say mery Tashna labi bhi Khtm Hoi
غزل
اب کے برس ہونٹوں سے میرے تشنہ لبی بھی ختم ہوئی
تجھ سے ملنے کی اے دریا مجبوری بھی ختم ہوئی
کیسا پیار کہاں کی الفت عشق کی بات تو جانے دو
میرے لیے اب اس کے دل سے ہمدردی بھی ختم ہوئی
سامنے والی بلڈنگ میں اب کام ہے بس آرائش کا
کل تک جو ملتی تھی ہمیں وہ مزدوری بھی ختم ہوئی
جیل سے واپس آ کر اس نے پانچوں وقت نماز پڑھی
منہ بھی بند ہوئے سب کے اور بدنامی بھی ختم ہوئی
جس کی جل دھارا سے بستی والے جیون پاتے تھے
رستہ بدلتے ہی ندی کے وہ بستی بھی ختم ہوئی
طاہر فراز
Tahir Faraz