24/02/2025 08:28

اتنا بڑھا ہے ذہن کا یہ اضطراب کیوں

اتنا بڑھا ہے ذہن کا یہ اضطراب کیوں
گستاخئِ سخن کا ہوا ارتکاب کیوں

اربابِ اقتدار کو اب بھی یہ فکر ہے
چہرے صداقتوں کے ہوئے بے نقاب کیوں

ہے ہجرتوں کی دھول چٹختی زمین پر
بیٹھے ہیں رہگزار پہ خانہ خراب کیوں

خوشبو کے سب سراغ اڑا لے گئ ہوا
دستِ خزاں نے لوٹ لیئے سب گلاب کیوں

کیا التجا کا بابِ اثر بند ہو گیا
میری دعائیں ہوتی نہیں مستجاب کیوں

جذبوں کے قتلِ عام میں سب ہی شریک تھے
ہم سے ہی ہورہے ہیں سوال و جواب کیوں

پہلے ہی تھے حصارِ اذیّت میں خیمہ زن
پھر آزمائشوں کا نیا انتخاب کیوں

آزردگی کی لہر میں کھونے کے باوجود
آنکھوں سے آنسوؤں کا رہا اجتناب کیوں

اک وحشتِ خیال رہی ہر قدم پہ ساتھ
ہے آگہی کا نور پہ سارا عذاب کیوں

نورِ شمع نور

مزید شاعری