احباب سے بس مجھ کو محبت کی طلب ہے
لیکن یہ طلب بھی تو قیامت کی طلب ہے
اے شوقِ نظارہ مجھے صحراؤں میں لے چل
اب عقلِ پریشاں کو بھی وحشت کی طلب ہے
کلیوں کے چٹکنے کی جو آواز بھی سن لے
احساس کو اس حسنِ سماعت کی طلب ہے
ہر شخص کوہے تنگی ء داماں کی شکایت
ہم صحرا نشینوں کو بھی وسعت کی طلب ہے
یہ دل ہے شبِ وصل کی خواہش میں گرفتار
اور عشق دل آزار کو فرقت کی طلب ہے
اس دل میں کسی شے کی تمنا نہیں باقی
آنکھوں کو مگر اشکِ ندامت کی طلب ہے
محرومِ سکوں اتنا کیا زعمِ انا نے
اب میرو تفاخر کو ملامت کی طلب ہے
فیاض یہ حسرت ہے اسے دیکھ لوں اک بار
آئینہ ہوں میں اور مجھے حیرت کی طلب ہے
فیاض علی فیاض