- شاد عظیم آبادی
شاد عظیم آبادی 1846- 1926 پٹنہ کے مشہور شاعر تھے ۔ انھوں نے کئی رباعیاں لکھیں اور شاد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی رباعیوں کا انگریزی نثر میں ترجمہ ہوا پھر سر نظامت جنگ نے انھیں انگریزی ہی میں منظوم پیراہن عطا کیا ۔ ان کی رباعیاں تصوف، فلسفہ اور اخلاقی مضامین سے مملو ہیں۔ یہاں ان کی دو رباعیاں درج کی جارہی ہیں :
کیا مفت کا زاہدوں نے الزام لیا
تسبیح کے دانوں سے عبث کام لیا
،یہ نام تو وہ ہے، جسے بے گنتی لیں
کیا لطف، جو گن گن کے، ترا نام لیا
ہے دور کبھی دن کا یاں شب ہے
گردش کا زمانے کی یہی مطلب ہے
ہم تم نہ رہیں گے ورنہ دنیا ساری
تا حشر یوں ہی رہے گی جیسی اب ہے
امیر مینائی
امیر مینائی 1244 ھ میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں اسیر کے شاگر د ہوئے ۔ عرصے تک واجد علی شاہ کے دربار اور رام پور کے نواب یوسف علی خاں سے وابستہ رہے ۔ پھر حیدرآباد آۓ اور چند ہی دنوں کے بعد 1318 ھ میں انتقال کیا ۔ ان کا دیوان مراۃ الغیب کے نام سے شائع ہوا جس میں 30 رباعیاں بھی ہیں ۔ ایک رباعی درج کی جاتی ہے :
آئی ہے شب ہجر رلانے کے لیے
میں ایک نہیں سب کے مٹانے کے لیے
اشکوں میں مرے ڈوب رہا ہے عالم
آنکھیں مری روتی ہیں زمانے کے لیے
جگت موہن لال رواں
جگت موہن لال رواں ( 1989 – 1934 ) کی رباعیوں میں خیالات کی بلندی، بندش کی چستی، تشبیہات اور استعارے حسن پیدا کرتے ہیں۔ فلسفہ ان کا خاص موضوع ہے ۔ ایک رباعی پیش ہے :
اس دار فانی میں مقصد دل کیا ہے
کہیے تعبیرِ خواب باطل کیا ہے
جب قلب کو اک دم بھی راحت نہ ملی
آخر اس زندگی کا حاصل کیا ہے
عبدالباری آسی
عبد الباری آسی ( 1892 – 1946 ء ) کی رباعیات کا ایک مجموعہ 1948 ء میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ان کے ہاں عشق اور خمریات کے علاوہ مذہب، فلسفہ اور اخلاق نمایاں ہیں ۔ ایک رباعی درج ہے :