اردو رباعی کا سفر اور فنی خصوصیات – Urdu rubai ka safar aur fanni khusoosiyat

شمیم کرہانی نے بھی کچھ رباعیاں کہی ہیں ۔ ایک رباعی یہاں پیش ہے :

اس عقدہ کو کس جتن سے کھولے بندہ
ہر پھندے کے بعد اک دوسرا پھندا
دنیا دنیا کرے کہاں کی دنیا
گورکھ دھندا عجیب گورکھ دھندا

ڈاکٹر سلام سندیلوی اردو رباعیات پر ماہرانہ نظر کے حامل ہیں ۔ ان کا تحقیقی مقالہ ” اردو رباعیات ” بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ جس میں انھوں نے اردو کے اہم رباعی گو شعرا کا کلام جمع کیا ہے ۔ وہ خود بھی رباعی کہتے تھے ان کی ایک رباعی ذیل میں درج کی جارہی ہے جس میں بطور تشبیہ جلیان والا باغ کے قتل عام کا ذکر کیا گیا ہے :

بجھنے لگا مغرب میں وہ سورج کا چراغ
دامان شفق میں وہ کھلے خون کا داغ
جس طرح سپوتوں کے لہو سے ہو لال
امرتسر میں جلیان والے کا باغ

اختر انصاری نے بھی متعدد رباعیاں لکھیں۔ ان کی رباعیوں میں نیا پن اور سیاسی مسائل ملتے ہیں۔ ایک رباعی پیش ہیں :

طوفان خاموش سفینہ بہتر
جینے سے مرنے کا ارادہ بہتر
کہتا ہے یہ آزادی عالم کا غرور
بستی سے تو ویران جزیرہ بہتر

پریم وار بڑٹنی نے بھی رباعیاں لکھی ہیں ۔ ایک رباعی درج ہے :

یوں دیدۂ احساس سے آنسو ٹپکے
یوں دل میں کسی یاد کے کوندے لیکے
جیسے کوئی الھڑ سی کنواری لڑکی
سورج کی طرف دیکھ کے پلکیں جھکے

صہبا اختر اردو کے ترقی پسند شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ انھیں فن پر کافی عبور حاصل ہے ۔ انھوں نے رباعیاں بھی لکھیں ۔ ایک رباعی درج ہے :

پلکوں کے جھکاؤ میں پر افشاں ہے تیر
زلفوں کی ہر اک لٹ میں بہار میں ہیں اسیر
ہونٹوں سے جب آتی ہے بسی گالوں پر
بنتی چلی جاتی ہے ستاروں کی لکیر

رسالہ حیدر آباد کے مدیر اور مشہور ترقی پسند شاعر سلیمان اریب نے بھی رباعیاں لکھیں ۔ اریب 1922 ء میں تولد ہوئے۔ 1980 ء میں انتقال ہوا۔ ان کے مجموعہ کلام ” کڑوی خوشبو میں چار رباعیاں ہیں ” جن میں سے ایک رباعی یہاں درج ہے:

بے دامن و با دیدۂ تر زندہ ہوں
آئینہ بکف خاک بسر زندہ ہوں
مجھ رند خرابات کو دیکھ اے دنیا
ہر سانس پہ مرتا ہوں مگر زندہ ہوں

پاکستان کے مشہور شاعر عبدالعزیز خالد اپنے مخصوص لب ولہجہ کے لیے شہرت رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں زیادہ لکھیں، چند ر باعیاں بھی ملتی ہیں۔ ایک رباعی یہاں پیش ہے :

ایک تبصرہ چھوڑیں