اردو رباعی کا سفر اور فنی خصوصیات – Urdu rubai ka safar aur fanni khusoosiyat

بکھرے جو حسیں زلف بکھر جانے دے
اس وقت کو کچھ سنور جانے دے
باقی نہ رہے صبح کا دھڑکا کوئی
اک رات ایسی بھی گذر جانے دے

     مندرجہ بالا صفحات میں اردو میں صرف چند رباعی گو شعرا کا ذکر کیا گیا۔ کئی ناموں سے صرف نظر بھی کیا گیا ہے اس کی وجہ صرف تنگی صفحات ہے لیکن جتنے شاعروں کو پیش کیا گیا ان سے اردور باعی کے آغاز سے لے کر آج تک کے طویل سفر کا خاکہ نظر آ جاتا ہے اور یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ شعرا نے رباعی میں تنوع پسندی اختیار کر تے ہوئے زندگی کے مختلف موضوعات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ۔ رباعی کا اختصار اور اس کی ہئیت کی پابندیوں نے بیش تر شعرا کو اس سے دور ہی رکھا۔ لیکن پھر بھی تقریبا سبھی غزل گو شعرا کے ہاں چند رباعیاں ضرور مل جاتی ہیں۔ اگر ان سب کا احاطہ کیا جائے تو ہزاروں صفحات بھی شائد کافی نہ ہوں ۔

خلاصہ

     اردو کی کئی دیگر اصناف کی طرح رباعی کا جنم بھ دکن میں ہوا۔ رباعی ایک فارسی صنف سخن ہے۔ فارسی کے اہم شعرا میں رودکی، ابوسعید ابوالخیر، عطار، مولانا روم، سعدی، حافظ وغیرہ شامل ہیں۔ رباعی کا ایک مخصوص وزن ہے ۔ رودکی نے رباعی کے لیے بحر ہزج میں چوبیس اوزان کا تعین کیا تھا لیکن بعض ماہرین عروض کے مطابق ہندی چھندوں کے اعتبار سے اس میں بیالیس ہزار سے زائد اوزان ہو سکتے ہیں ۔ عام طور پر رباعی کاوزن ” لاحول ولاقوة الا باللہ ” مقبول ہے ۔ فارسی رباعیوں کے موضوعات میں عشق اور خمریات کے علاوہ عشق حقیقی، توحید و معرفت، اخلاق و فلسفہ جیسے موضوعات ملتے ہیں ۔ ہندوستان کے بھی چند شعرا نے فارسی میں رباعیاں کہی ہیں ۔

     اردو کے پہلے رباعی گو شاعر کی حیثیت سے خواجہ بندہ نواز رح کا نام لیا جاتا ہے ۔ اگر چہ ان کی تصانیف کے بارے میں محقیقین کی رائے یہ ہے کہ یہ تصانیف ان کے دور کے بعد کی تخلیق ہے جنھیں بندہ نواز کے نام سے منسوب کر دیا گیا لیکن بندہ نواز کی رباعی کے ضمن میں اس طرح کی کوئی بحث سامنے نہیں آئی ہے ۔ دکنی شعرا میں محمد قلی قطب شاہ، وجہی، غواصی، نصرتی اور شاہی کے علاوہ اور بھی کئی شعرا نے رباعیاں لکھیں ۔ ولی سے اردو کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔ اس نے شمالی ہند میں اپنے کلام کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ اردو میں تخلیقی اظہار کی بے پناہ صلاحیت ہے ۔ جنوبی ہند میں ولی کے بعد کئی شعرا نے رباعیاں لکھیں ۔ آصفیہ دور میں شمالی ہند سے کئی شعرا حیدرآباد منتقل ہوگئے انھوں نے بھی رباعی کے دامن کو اور وسیع کیا۔ ان شعرا میں جلیل مانک پوری، امیر مینائی، داغ دہلوی، فانی بدایونی، یاس یگانہ چنگیزی، نظم طباطبائی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔شمالی ہند میں ابتدائی عہد سے ہی رباعی گوئی کا آغاز ہو چکا تھا چنانچہ حاتم، محسن، قائم، بیان، تاباں، اور سنتو کھ راۓ بیتاب کے نام اہم ہیں ۔ ان کے بعد خواجہ میر درد، سوز، سودا، میر اور میر حسن کے نام آتے ہیں۔ مصحفی، انشا، رنگین، جرات وغیرہ نے بھی لکھنوی مزاج میں رباعیاں تحریر کیں ۔ دہلی کے شعرا میں ذوق، غالب، مومن کے نام اہمیت کے حامل ہیں ۔ تقریبا سب ہی مرثیہ گو شعرا نے بھی رباعیاں کہیں کیونکہ مرثیہ پیش کرنے سے پہلے عام رواج تھا کہ رباعیوں سے آغاز کیا جائے ۔ ان شعرا میں میر انیس، دبیر، عشق، اوج وغیرہ کے نام آ تے ہیں ۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں تسلیم، امیر مینائی، اور داغ اہم ہیں۔

     1857ء کے بعد مسلمانوں میں بیداری کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی ۔ سر سید کی تحریک نے مغربی تعلیم کی طرف نوجوانوں کو متوجہ کیا ۔ محمد آزاد حسین نے شاعری میں مناظموں کے ذریعے ایک باب کا آغاز کیا۔ حالی اور دیگر شعرا نے رباعیوں کے ذریعے عوامی رائے کو ہموار کرنے کا ایک اہم فریضہ انجام دیا۔ اردو رباعی گو شعرا نے اپنی رباعیوں میں طنز و مزاح سے بھی کام لیا ان شعرا میں اکبر الہ آبادی کا نام سرفہرست ہے ۔ جدید دور میں بھی شعر انے فنی لوازم کی پاسداری کرتے ہوئے رباعیاں تحریر کیں اور یہ سفر مسلسل جاری ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں