اس نے پھر دردِ محبت کی دوا دے دی ہے
چشمِ پْرنم لیے جینے کی دعا دے دی ہے
میں نے تنہائی کا مشکل سے بھرم رکھا تھا
اس نے گزرے ہوۓ لمحوں کو ہوا دے دی ہے
لوٹنے والے کو منزل کی طلب تھی نہ خبر
دلنشیں خواب نےپھولوں کی قبا دے دی ہے
چاند روشن ہوا اور تارے فلک ناز ہوۓ
اس نے سوۓ ہوۓ جذبوں کو جلا دے دی ہے
جو چمن صرفِ خزاں تھا گل و گلزار ہوا
تو نے غنچوں کو بھی کھلنے کی ادا دے دی ہے
آگہی حسنِ طلب مہر تمنّا قربت
دینے والے نے بصد ناز شفا دے دی ہے
میں تو اس حلقۂ طوفاں میں اکیلا تھا شآد
کیوں مجھے ساتھ نبھانے کی دعا دے دی ہے
شجاع الزماں خان شاد