loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

18/06/2025 16:53

اس ٹھہراؤ سے پہلے بتائیں کیسے رہتے تھے

غزل

اس ٹھہراؤ سے پہلے بتائیں کیسے رہتے تھے
ہم دریا تھے اپنی موج میں بہتے رہتے تھے

اس کے غلط رویے پر چپ رہنا پڑتا تھا
لڑ سکتے تھے اس سے مگر ہم سہتے رہتے تھے

اس نے دھوکہ دے کے بتایا دنیا کیسی ہے
ورنہ ہم کیا خاک سمجھتے جیسے رہتے تھے

اس بستی میں ایک غضب کا میلہ لگتا تھا
وہ آتی رہتی تھی ہم بھی آتے رہتے تھے

ان آنکھوں میں خوابوں والے جگنو روشن تھے
ان چہروں پہ اکثر پھول برستے رہتے تھے

دل آزاری کرنا اپنا کام تھا دنیا میں
جو کچھ بھی جی میں آ جاتا کہتے رہتے تھے

قمر عباس قمر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم