اس کی تمثیل کہاں اس کا تو ثانی بھی نہیں
یعنی بےربط رہے ربطِ زمانی بھی نہیں
میرے اقرار میں شامل وہ صحیفے جیسا
اور انکار میں وہ شخص زبانی بھی نہیں
زرد چہرے سے ہی اندازہ لگا حالت کا
اس کی گٹھڑی میں کوئی شام سہانی بھی نہیں
درد انجام تلک لے کے تو آیا ہے مگر
درد اس حد سے سوا آنکھ میں پانی بھی نہیں
عمر لے جاتی ہے بچپن سے بڑھاپے کی طرف
اور کچھ سال ہیں مہتاب جوانی بھی نہیں
ماہتاب دستی