اس کے بغیر اپنا بھی ایسا ہی حال تھا
جیسے خزاں کے بعد گلوں کا جمال تھا
پل بھر کو وہ قریب ہوئے دور ہو گئے
یہ عمر بھر کے ہجر کا کیسا وصال تھا
خوشیوں کا تاج اس نے جبیں پر سجا لیا
جس کے فراق میں یہ مرا دل نڈھال تھا
برسوں کے بعد آج ملا مسکرا دیا
جذبات کو چھپانے میں اس کو کمال تھا
اس کے بغیر پیار کے جلتے کہاں چراغ
یہ میرے ساتھ رہ کے بھی اس کا خیال تھا
اک عشقِ رائیگاں نے کیا درد آشنا
کہنے کو میرا عشق کبھی لا زوال تھا
اقبال اس کے عشق نے سر سبز کر دیا
ورنہ بہار میں بھی کہاں یہ جمال تھا
ڈاکٹر سید محمد اقبال شاہ