افسانہ
” جوئے کی لت “
تحریر : محمداشرف
پروردہ ءِ خلق کی خلق کردہ کائنات بِلا شُبہ انتہائی وسیع ہے جس کی وسعتوں کا اندازہ لگانا بعید از عقل ، فہم و ادراک ہے ، مگر صرف ایک دل ہی ہے جو لمحہ بھر میں اسے اس کی جملہ وسعتوں کے ساتھ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے ۔
اسد کے دل کی دنیا جس قدر وسیع تھی اتنا ہی تاریک بھی ۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اس کے سر پر اس کی ماں کی مہر والفت کا سایہ اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ بالکل وجود کو نچوڑ دینے والی گرمی کے موسم میں باد سموم اور گھنے و سیاہ بادلوں کی مانند سایہ فگن تھی ، تب اس کی مثال بالکل ایک آوارہ بادل کی سی تھی ۔
اسے دوجہان کی فکرتھی ، نہ ہی کوئی پروا ۔
دن میں پڑھائی اور پڑھائی سے فراغت کے فوراً بعد وہ گاؤں کے سَرسبز اور لہلہاتے کھیتوں میں ، مٹی کے ٹیلوں پر، تو کھبی کچے راستوں پر موج مستیوں میں مگن ، وہ کھبی رَتھبانوں کے رَتھ کے ساتھ لٹک جایا کرتا ، تو کھبی ان مٹی کے ٹیلوں پر سےعمداً پسلنے کے مزے لُوٹتا، یا پھر ہرے بھرے کھیتوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیلنے میں مگن رہتا ، نماز عصر کی ادائیگی کے بعد اپنے کچھ مخصوص دوستوں کے ساتھ بنٹے کھیلنے میں مصروف ہوجایا کرتا ، وہ جی بھر کے بچپن میں کھیلے جانے والے ان تمام کھیلوں کا مزہ لیتا ، جن کے کھیلنے حتٰی کہ ان کے ناموں سے بھی عصرِ حاضر کے لونڈے یکسر نابلد اورمحروم ہیں ۔ صبح اسکول سے لوٹتے ہوئے گولے گھنڈے والے کے ٹیلے سے برف کی کُلفییوں کے چس لینا ہو ، یا پھر بابا فیقا کے ریڑے سےچھولے چاول اور نان کی روٹی کا سواد ، الغرض یہ کہ وہ تفریح کا کوئی بھی موقع اپنے ہاتھ سے جانے دیا کرتا تھا اس طرح وہ دن بھر دوستوں کے ساتھ موج مستیوں اورکھیل کود میں مگن رہتا ، جیسے ہی شام کی سیاہی اُمنڈ آتی تو وہ دوڑتا ہوا ماں کے پَلو سے چمٹ کر اس کی مہروالفت و شفقت سے بھرپور بانہوں کے حصار میں آجاتا اور دنیا و مافیھا اور اس کے جملہ معاملات و معمولات سے یکسر بے خبر ہوجایا کرتا ۔
اس کی ماں انتہائی نیک پاک سرشت شریف اور خود دار خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں کے ایک چھوٹے سے سرکاری اسکول میں استانی تھی ، دن کے چھ سے سات گھنٹے اسکول کی نذر ہوجایا کرتے ، عصر کے بعد مغرب تک گاؤں کے چند بچیاں ٹیوشن پڑھنے کے لیئے گھرآجایا کرتیں اور اس طرح باقی کا وقت گھر اور گھرداری میں گزر جایا کرتا ، اس پر اسد کی پوری ذمہ داری اور اس کی ضروریات کا دھیان اور پاس رکھنا ، اسے اسکول لے جانا اور واپسی پر گھر واپس لیتے آنا ، اسکول کے اساتذہ کی جانب سے روز کے معمول کے مطابق وضع کردہ روز کے کام کی نگرانی اور ان کی تکمیل کا اہتمام ، یہ سب اس اکیلی و جرات مند خاتون کے نازک کاندھوں پر ، نیز ان تمام تر ذمہ داریوں کو وہ انتہاٸی خندہ پیشانی کے ساتھ سر انجام دیا کرتی ، تھکاوٹ کے آثار بھی چہرے پر نہ لاتی ، یہ سارے کَشٹ وہ محض اپنے لاڈلے کے چہرے پر دائمی مسکان قائم رکھنے کی غرض سے عمل میں لایا کرتی تاکہ اس کا لال تاسف و قنوطیت کا شکار نہ ہو پائے.
اس کا باپ شاکرایک سرکاری دفتر میں ہیڈ کلرک کے عہدے سے چند ماہ قبل ہی ریٹائر ہوگیا تھا ،
پھر تھا وہ پرلے درجے کا نشئی !
ہر وقت شراب اور چرس کے نشے میں بدمست ، کئی کئی دن گھر سے غائب ، چرس اور شراب نوشی کا فعل تو کسی حد تک قابل برداشت تھا مگر ان دونوں سے بڑھ کر وہ جس بیماری میں شدت کے ساتھ مبتلا تھا جو اس کی بیوی کے لیٸے قطعاً قابل برداشت نہ تھی
وہ تھا جوا کھیلنا !
وہ چرسی اور شرابی ہونے کے ساتھ ساتھ جواری بھی تھا۔
سیانے کہتے ہیں کہ جواری کے ساتھ سے تو درکنار سائے سے بھی دور رہنے میں مصلحت اور خیر سمجھو
جواری کی سنگ بھلی ، نہ ہی سنگت
جوئے کی اِس لت نے اسے کہیں کا نہیں رکھ چھوڑا تھا ، اس نے اپنی پینشن کی ساری رقم اِسی جوئے اور شراب کی نذر کر دی تھی ، جس کی وجہ سے اب اس کے پَلے کک بھی باقی نہیں رہا تھا ۔
ماں بارہا اسد کو یہ احساس دلاتی کہ بیٹا تیرے باپ کا تو کچھ بھی نہیں پتا کہیں کوئی جول نہ کردے جتنی ہمت ہے تو پڑھ ، تیری پڑھائی اور ضرورتوں کے لیئے اگر مجھے لوگوں کے گھروں میں جا کر برتن مانجھنے بھی پڑ جائیں تو یقین جانو کوئی مضائقہ نہیں میں وہ بھی کرنے کو آمادہ ہوں ۔
اس بے نیازی میں اسد نے زیست کی تقریباً دس بہاریں دیکھ لیں۔
ایک دن اس کی ماں نے اُسے ساتھ والے ہمسائے کے لونڈے کے ساتھ سکول روانہ کیا تو روانگی سے قبل ماں کے چہرے پر ایک عجیب سی سنسنی اور مسکان واضح تھی ، اس نے اپنے لال کا ماتھا چھوما یوں اسد بھی ماں کی محبت کے چسکے لینے کے بعد ہنسی خوشی سکول کی جانب روانہ ہوگیا ، سکول سے چُھٹی کے بعد جب وہ گھر پہنچا تو اس کے گھر کے سامنے ایک بھیڑ لگی ہوئی تھی ، گاؤں کے چھوٹے بڑے اور بوڑھے تقریباً سارے لوگ اس کے گھر کے دروازے کے قریب جمع تھے گھر میں داخل ہونا اس کے واسطے محال ہوا جارہا تھا ۔
اسد کو دیکھتے ہی اِس بِھیڑ میں سے کسی بزرگ نے آواز دی” ارے بھائی ذرا بیٹے اسد کو تو گھر میں داخل ہونے دو “
اسد کے سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا کہ آخر ماجرہ کیا ہے ؟ اور لوگوں نے اس کے گھر کا محاصرہ کیوں کر رکھا ہے ؟
اس کا زہن لوگوں کی اس لگائی ہوئی بِھیڑ اور گھر کے دروازے میں اٹک گیا اور اسے عجیب و غریب خیالات کے انبوہ نے آن دبوچ لیا ۔
وہ اپنے زہن میں پیدا ہونے والے ان خیالات سے نبردآزمائی میں مکمل طور پر مستغرق تھا
مگر ہر بار اس کے زہن نے اُسے نتیجے تک پہنچے میں یکسر مایوس کیئے رکھا ۔
مگر پھر اچانک اس کے زہن میں ایک خیال نے جنم لیا کہ بدل نخواستہ کہیں اس کے باپ نے کوئی جول نہ کر دی ہو ، جس حوالے سے اُس کی ماں اُسے اکثر خبردار کیا کرتی تھی ۔
اسد کا نام سنتے ہی اس کا باپ گھر سے باہر نکل آیا ، بیٹے کو دیکھتے ہی اُس کی نگاہوں میں ایک چمک سی آگئی اور اُس نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،
سن بیٹا آج تیرے سکول جانے کے ساتھ ہی تیری ماں ہم دونوں کو داغِ مفارقت دیتی ہوئی جنت مکانی ہوگئی ، اور جاتے جاتے مجھے یہ وصیت بھی کرڈالی کہ دیکھ شاکر میں جا رہی ہوں پھر دھیان رہے کہ میرے لال کو میرے پاس ضرور لیتے آنا ، تاکہ اُسے دیکھ کر میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ سکے ماں کی وصیت کا لحاظ اور پاس رکھتے ہوئے اب تُو ذرا میرے ساتھ چل تاکہ میں تجھے تیری ماں کی حسین جنت کی سیر کرا سکوں تاکہ تُو وہاں اپنی ماں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر شاد و مسرور ہو سکے اور اپنی نگاہوں سے اس کا مشاہدہ کر سکے کہ وہاں تیری ماں تیرے رب کی عطا کردہ انعامات سے کیسے فیضیاب ہوئی جاتی ہے ۔
میرا بیٹا اب اپنی ماں کی وصیت کی لاج رکھ اور چل میرے ساتھ تاکہ تیرے دل میں اپنی ماں کو لے کر کوئی قلق و تاسف باقی نہ رہے اور تیرے ماں کی وصیت کی تکمیل سے میرے خاوند ہونے کا حق بھی ادا ہو پاٸے،
لوگوں کی نگاہیں دروازے پر سے یکدم ہٹ گئیں اور ان سب نے ایک ساتھ ہی اپنی نگاہوں کو باپ اور بیٹے کی جانب مرکوز کرلیں اور ہمہ تن گوش ہوکر اسد کے باپ کی سحر انگیز باتوں کو سننے میں مگن ہوگئے کہ آخر وہ اپنے بیٹے سے کہنا کیا چارہا ہے ؟ یا پِھر یہ کہ اسد کو لے کر آخر اس کی نیت اور ارادے کیا ہیں ؟ اس کے ماں کی میت تو سامنے پڑی ہے بیچ میں یہ جنت وصیت اور جنت کی سیر خاوند کے حقوق کی ادائیگی کی یہ کہانی کہاں سے آگئی۔
اسد کی ماں کی میت گھر میں پڑی اپنے لواحقین کی نظر التفات کی منتظر تھی کہ وہ اس کی تجہیز و تکفین کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو کر اس کے روح کی تسکین کا باعث بنیں تاکہ اس کی بے چین اور تڑپتی ہوئی روح عالم ارواح کی جانب پلٹ کر شاد و مسرور ہو پائے ۔
شوہر اپنی عادات قبیحہ و اطوار کریحہ کی بدولت اِس لائق تو تھا ہی نہیں کہ کم از کم اِس حتمی و دائمی وداعی کے لمحات میں خاوند ہونے کے حقوق و دیگر فرائض کی انجام دہی کا اہتمام کرسکے ۔
مگر دائمی وداعی کے اِن آخری لمحات میں اُس نے اپنے بیٹے کو ماں کی آخری دیدار کی لذت سے بھی یکسر محروم کردیا ۔
لوگ شاکر کی طلسماتی باتیں سننے میں منہمک ہوگئے جن کے ذریعے وہ اپنے بیٹے اسد کو بہلا رہا تھا اور یوں وہاں موجود تمام لوگ تماش بینوں کی مانند تماشہ دیکھنے میں مگن تھے ، کسی میں اتنی ہمت و جرات پیدا نہ ہو پائی کہ اُس کے باپ کو یہ سمجھا پائے کہ بھائی کم از کم یہ لمحہ گھرچھوڑ کر جانے کا تو ہرگز نہیں اور اگر جانا ہی ہے تو کم از کم بیٹے کو یہیں تدفین تک ہی سہی مگر ماں کے پاس رہنے دے ۔
کسی کے بات کی پروا کیئے بنا وہ بیٹے کا ہاتھ تھام کر وہاں سے چلتا بنا اور سیدھے وڈھے سائیں کے جوئے کےاڈے پر پہنچ گیا ۔
سائیں نے شاکر کو دیکھتے ہی زور کا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ،
شاکر آج یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں ،
تُو تو بیٹے کو بھی ساتھ لے کے اڈے پے آگیا ۔
شاکر نے چہرے پر مسکان سجاتے ہوئے جواب دیا ،
سائیں یہ میرا بیٹا ہی نہیں ، بلکہ
میرے حُکَم کا اِکہ ہے اِکہ !
سائیں نے پھر سے قہقہہ لگایا
اور کہا
اچھا !!!
تے فر ہوجاؤئے اِک بازی
شاکر نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
سائیں نے شاکر سے کہا ،
سن شاکر اگر تُو آج بازی ہار گیا تو تیرا بیٹا میرا ۔
بول کیا کہتا ہے ؟
اور اگر میں جیتا تے فر سائیں
تو پھر یہ پانچ لاکھ کے تازہ نوٹوں کے پانچ بنڈل تیرے
بول !!!
شاکر کا ایمان و ایقان زنگ آلود تو تھا ہی ، مگر نوٹوں کی اِس چمک نے شاکر کو بالکل ہی اندھا کردیا ۔
شاکر نے جواب دیا ،
سائیں شرط منظور ۔
یوں میدان سج گیا
ایک جانب پھول جیسا خوبصورت دس سالہ بچہ جسے سائیں کے نمک خواروں نے مضبوطی کے ساتھ جکڑ لیا تھا ۔
اور دوسری جانب پانچ لاکھ روپے کے چمکتے ہوئے تازہ نوٹ
دونوں جانب خوب زہنی تناؤ کا عالم ، اور شکست سے بچنے کے لیئے داو پیچ اپنے عروج پر ۔
آخرکار کھیل کا حتمی نتیجہ شاکر کے شکست پر ہی اختتام پذیر ہوا ۔
تماش بین خوب مزے لیتے ہوئے سائیں کی جیت کا جشن مناتے ہوئے تالیاں پیٹنے اور سیٹیاں بجانے کے شغل میں مشغول ہوگئے ۔
کھیل کے اختتام پر سائیں نےاسد کے باپ شاکر اور تمام تماش بینوں کے سامنے اسد کے ہاتھ ایک مضبوط رسی کے ساتھ بھاند دئیے اور اُسے گھسیٹتا ہوا اپنے کھیتوں کی جانب لے گیا۔
شاکر نے اس دن نہ صرف اپنی بیوی بلکہ عربوں کے دور جاہلیت کی رسم کو زندہ کرتے ہوئے بیٹی کی جگہ اپنے آنکھوں کی ٹھنڈک ، بڑھاپے کے واحد سہارےاپنے فرزند اسد کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے زندہ دفن کر دیا ۔
اسد کو جوٸے میں ہارنے سے قبل علی الصبح اس نے اسد کے اسکول جانے کے بعد گھرمیں داخل ہوتے ہی اسد کی ماں سے فوری پیسوں کا مطالبہ کر لیا تھا ، مگر مایوسی کے بعد اس نے اس کی ماں کا گلہ گھونٹ دیا ۔
زندگی نے صرف چند ہی گھنٹوں کے وقفے کے بیچ اسد سے مہر و الفت پیار و شفقت کے سارے سچے اور کھرے موتی چین کر اسے یکدم آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ۔
اس دن ان دو مقامات پر پورے زور وشور کے ساتھ اور خوب میلہ سجھا
پہلا اس کی ماں کی موت اور اس کے آخری دیدار سے محرومی کے درد کا ،
جبکہ
دوسرا اس کے باپ شاکر کا اسے جوئے میں ہارنے اور دائمی طوق غلامی پہنانے کا ۔
ان دوطرفہ سجے ہوئے میلوں میں اگر کسی کو شکست ہوئی بھی تو ، بےجرم و خطاء اس دس سالہ معصوم بچے اسد کو ،
لوگوں کے لیئے یہ محض ایک رسمی حاضری ، اور ایک شغل سے بڑھ کر کچھ نہ تھا،
مگر اسد کے لیئے یہ لمحات قیامت سے بھی سنگین تھے بالکل اسی طرح جیسے بنا مرگ ہی قدرت نے اُسے ابدی جہنم میں دھکیل دیا ہو۔
یوں اس کے باپ کے گناہوں کا بوجھ اس کے دس سالہ معصوم بچے کے کاندھوں پر لاد دیا گیا ، جو گناہ و ثواب کے فلسفے سے یکسر نابلد تھا،
اس طرح انصاف کے جملہ تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اسے غلامی کی صورت میں عمر قید کی سزاء سنا دی گئی