غزل
اقرار کی صورت تھی نہ انکار کی صورت
دیکھی نہ گئی مجھ سے مرے یار کی صورت
سب مجمع آشفتہ سراں دیکھ رہے تھے
میں تکتا رہا آئنہ بردار کی صورت
کچھ دن کے لئے قافلۂ خوش نظراں بھی
گردش میں رہا گردش پرکار کی صورت
وہ شہر جو رونق تھا جہان گزراں کی
لگتا ہے مجھے وادیٔ پر خار کی صورت
میں دشت تمنا کا مسافر ہوں مجھے بھی
اک سایہ ملے سایۂ دیوار کی صورت
اب تک مری آنکھوں میں حرارت ہے وفا کی
دیکھی تھی کبھی کوچۂ دل دار کی صورت
اخترؔ کو نہ راس آیا کبھی موسم ہجراں
پھر بھی ہے رواں لمحۂ بیدار کی صورت
اختر سعیدی