غزل
الفت ہی نہ کی ہوتی نہ دل سے گئے ہوتے
ہوتا نہ وہ ہرجائی دکھ یہ نہ سہے ہوتے
کس آس پہ ہر لمحہ تجدید وفا کی ہے
اے کاش جفاؤں میں ہم تم پہ گئے ہوتے
ان نام کے رشتوں میں گر بوئے وفا ہوتی
روشن مرے آنگن میں الفت کے دیئے ہوتے
کچھ دیر کی ہمراہی پھر راہ بدل لینا
اے کاش کہ دنیا میں تنہا ہی رہے ہوتے
مانا کہ جدائی تو قسمت میں لکھی لیکن
کچھ روز تو اے جاناں تم ساتھ رہے ہوتے
آنکھوں سے بہے سارے یہ زخم مرے دل کے
کھل کے نہ اگر روتے ، تب جاں سے گئے ہوتے
صوفیہ حامد خان