ان کی محفل میں جب بلائے گئے
ہم جو پہنچے تو ظلم ڈھائے گئے
زخم کھا کھا کے اپنے سینے پر
لب پہ مسکان ہم سجائے گئے
جس طرح سے وہ ظلم ڈھاتے ہیں
وار ہم سے نہ یوں چلائے گئے
وار کاری لگا تھا خنجر کا "
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے”
ہم تو خود کو تسلی دیتے رہے
وہ مگر ہم کو بس رلائے گئے
ہم کہ ان کی طرح نہیں مفسد
نیک رستہ تو ہم دکھائے گئے
پھول چاہت وفاؤں کے سلمیٰ
خار زاروں میں بھی اگائے گئے
سلمی رضا سلمیٰ