اَے کہ میں تیرے لیے تھا اور تو میرے لیے
اب ترے ہاتھوں پہ لکھا ہے لہو میرے لیے
میری بکھری ٹکڑیوں میں پھوٹنے والے ہیں پر
میرے قاتل جال پھیلا چار سُو میرے لیے
کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں
تُو پھرے قریہ بہ قریہ کُوبہ کُو میرے لیے
میں تو لا محدود ہو جائوں سمندر کی طرح
تو بہے دریا بہ دریا جو بہ جو میرے لیے
پھر زمیں کی سسکیاں اپنی لگیں خالدؔ مجھے
پھر ہوا ہے جشنِ مرگِ آرزو میرے لیے
خالد شریف