اُونچی جگہ سے گِر کر میں بے نشان ٹوٹا
تیرے بھی ہاتھ خالی ,میرا بھی مان ٹوٹا
اک کہکشاں تھی مجھ میں قوسِ قزح تھی ہر سُو
پھر سر پہ آکے میرے اِک آسمان ٹوٹا
خستہ دلی کا دُکھ بھی اپنی جگہ ہے لیکن
بستی میں سب سے پہلے میرا مکان ٹوٹا
پہلے میں سوچتا تھا زندہ ہُوں میں پھر اِک شب
ایسا گمان ٹوٹا ، ایسا گمان ٹوٹا
پتھر کے شہر میں اِک شیشہ مزاج میں تھا
پتھر مزاج لوگوں کے درمیان ٹوٹا
فیصل محمود