غزل
اپنی آنکھوں کے صدف کو حسن کا گوہر نہ دے
شام کی ویرانیاں دے صبح کا منظر نہ دے
ساتھ ہے بے چہرگی کے کارواں کا سلسلہ
دوستی کے آئنے کو یاد کا جوہر نہ دے
سرد رومانی پہر کا جذبۂ تخلیق ہوں
مجھ کو ایام گزشتہ کی کوئی چادر نہ دے
فکر و فن کا اک نیا انداز ہوں اس دور میں
گرد راہ آگہی ہوں آسماں دے گھر نہ دے
رفتہ رفتہ مصلحت کی نہر میں اتروں گا جب
اے غم دوراں تو مجھ کو وہم کا نشتر نہ دے
شاعری اپنی ہے جامیؔ عہد نو کی داستاں
میرؔ کے آنسو سہی خیام کے تیور نہ دے
عبدالمتین جامی