غزل
اپنے ہی باب میں نقصان بہت کرتے ہیں
میزبانی مرے مہمان بہت کرتے ہیں
اشک زخماتے ہیں کرچی کی طرح آنکھوں کو
ہم تری یاد میں نقصان بہت کرتے ہیں
نیند میں ان کے سبھی راز کو افشا کر کے
جاگنے والوں کو حیران بہت کرتے ہیں
لوٹ کر آتے نہیں وہ کبھی آنسو کی طرح
لوٹ آنے کے جو پیمان بہت کرتے ہیں
روز ملتے ہیں اسی سے جو مقدر میں نہیں
ہم مقدر کو پریشان بہت کرتے ہیں
محسن چنگیزی