غزل
اک خلا سا بنا کے دیکھ لیا
خود سے تُجھ کو گھٹا کے دیکھ لیا
پتھروں کی ہمیشہ زد میں رہی
خود کو شیشہ بنا کے دیکھ لیا
عاجزی میں سکون کتنا ہے
اپنے میں کو مٹا کے دیکھ لیا
تُجھ سے منسوب میں رہی پھِر بھی
نام تیرا ہٹا کے دیکھ لیا
آخری حد یہ انتظار کی ہے
خود کو پتھر بنا کے دیکھ لیا
آپ سے دور ہو نہیں پائ
آپ سے دور جاکے دیکھ لیا
سارے رشتوں میں ہے غرض شامل
رشتے سارے نبھا کے دیکھ لیا
تیری خوشبو نہ مل سکی مجھ کو
ساری خوشبو لگا کے دیکھ لیا
تیرے بن گھر بھی گھر نہیں ہوگا
گھر کا نقشہ بنا کے دیکھ لیا
صرف انسان ہی نہ بن پائ
خود کو کیا ،کیا بنا کے دیکھ لیا
میں کہیں کی نہیں رہی نصرت
"آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا”
نصرت عتیق گورکھپوری