غزل
اکٹھا خود کو کرے یا کہیں بکھر جائے
بتاؤ دل سے نکالا ہوا کدھر جائے؟
شفا کا ہاتھ رکھو دل پہ میرے آہستہ
ترا مریض کہیں درد سے نہ مر جائے
میں چاہتی ہوں اسے پھر کوئی محبت ہو
میں اس کو یاد کروں وہ جہاں جدھر جائے
میں اس کے غم کو سمیٹوں گی اپنی جھولی میں
وہ اپنا جھاڑ کے دامن سکوں سے گھر جائے
اگر وہ ساتھ نبھانے سے ڈر رہا ہے مرا
اسے کہو کے بہت ہو چکا ،مکر جائے
بچا رہا تھا کسی اور کو تحفظ میں
وہ ایسا آدمی ورنہ نہیں کہ ڈر جائے
عمود اپنی کہانی کا اختتام کرو
کہیں فسانہ ء دنیا سے دل نہ بھر جائے
عمود ابرار احمد