ایسا بھی اک شخص ہمارا ہو جاتا ہے
جس کے آگے چاند ستارا ہو جاتا ہے
جھلمل جھلمل اس کی آنکھیں ایسی ہیں
جیسے شام میں جھیل کنارا ہو جاتا ہے
جب سے رب کا شکر ادا کرنا ہے سیکھا
تھوڑے میں بھی خوب گزارا ہو جاتا ہے
لفظوں کا مفہوم بدلنا آجائے تو
جانی دشمن جان سے پیارا ہو جاتا ہے
لگتا ہے جب سارے رنگ ہمارے ہیں
رنگوں میں اک رنگ ہمارا ہو جاتا ہے
دل کا سودا ہے اس میں گھبرانا کیا
روز منافع روز خسارا ہو جاتا ہے
یار حماقت ہو جاتی ہے اچھی خاصی
اچھا خاصہ شخص بِچارا ہو جاتا ہے
دل ڈرتا ہےدل کا حال بتانے سے بھی
ایسا بھی تقدیر کا مارا ہو جاتا ہے
آتے ہیں واپس رنج و غم کے لمحے
جب انسان کو عشق دوبارہ ہو جاتا ہے
اس لیے عابد کوچہِ جاں میں جاتے ہیں
آتے جاتے کوئی نظارہ ہو جاتا ہے
عابد رشید