ایسے بچھڑے ایسے اجڑے حال نہ پوچھا دونوں نے
اپنے اپنے ہونٹ پہ رکھا اک انگارہ دونوں نے
کیسی کیسی دنیاؤں کے ہم دونوں نے خواب بُنے
اور پھر کیسی دنیاؤں میں وقت گزارا دونوں نے
اس کے سوا تو بات کوئی اور کوئی وعدہ یاد نہیں
راول جھیل کے اک پتھر پر شعر لکھا تھا دونوں نے
کیسی آنکھوں میں ویرانی کیسا دھندلا چہرہ تھا
اک دوجے کو اتنے سالوں بعد جو دیکھا دونوں نے
جانے کون سے پٙل میں ریت کا رشتہ ٹوٹا پیروں سے
آتی جاتی لہروں کا تو رستہ روکا دونوں نے
الجھی باتوں میں کاٹی قیوم مسافت عمروں کی
اک چھوٹے سے موڑ پہ پوچھا گھر کا رستہ دونوں نے
قیوم طاہر