غزل
ایک شب میں کمرے کا روپ ڈھل گیا کیسے
وہ تو گیلی لکڑی تھا رات جل گیا کیسے
ایک طرفہ چاہت بھی کیسا درد ہوتی ہے
میں ہوں آج تک پتھر وہ بدل گیا کیسے
کل تمام بستی میں سیل خوں بہا لیکن
ایک سر پھرا قاتل کل سنبھل گیا کیسے
وہ زمین زادوں کی خوں کشی کا عادی تھا
آج اپنا خوں پی کر دم نکل گیا کیسے
چاند کی حقیقت کو خوب جانتا ہوں میں
پھر بھی چاند راتوں کا جادو چل گیا کیسے
قیس رامپوری