غزل
بات سن اے چشم تر کچھ ہوش کر
ڈوب جائے گا یہ گھر کچھ ہوش کر
خود کشی ہی مسئلے کا حل ہے کیا
بام سے واپس اتر کچھ ہوش کر
دشت کی جانب چلا تو ہے مگر
سخت ہے یہ رہ گزر کچھ ہوش کر
اب کیا جذبات میں گر فیصلہ
روئے گا تو عمر بھر کچھ ہوش کر
مت پٹخ زنداں میں دیواروں پہ سر
خوں سے ہو جائیں گی تر کچھ ہوش کر
اپنی آزادی نہ دے صیاد کو
کاٹ کر خود اپنے پر کچھ ہوش کر
جس کو طاہرؔ تیری کچھ پروا نہیں
اس کی چوکھٹ پر نہ مر کچھ ہوش کر
طاہر حنفی