بات لاکھوں کی سہی پر وہ نہیں مانے تو
سچ کی میزان پہ رکھ کر بھی نہ گردانے تو
دیکھ کر جاتے ہوئے چیخ رہی ہوں بے سود
شخصیت کو مری آ کر بھی نہ پہچانے تو
توڑ کر دیر و کلیسا تو بنا دی مسجد
دل میں آباد جو ہو جائیں صنم خانے تو
شمع بن کر تو پگھلنے کو ہم آمادہ ہیں
ڈر یہ ہے رسم وفا توڑ دیں پروانے تو
شہر بے مہر میں جانا تو بہت چاہتی ہے
گر وہاں لوگ مری شکل نہ پہچانے تو
دل دھڑکتا ہے کہیں حشر نہ پھر جاگ اٹھے
چونک کر کھل گئے دو آنکھوں کے میخانے تو
کر کے در بند عیاںؔ بیٹھی ہوں غیروں کے لئے
بھیس میں اپنوں کے گھر آ گئے بیگانے تو
رشیدہ عیاں