باتوں میں اگرچہ نہیں تنظیم زیادہ
میں کہہ کہ نہیں کرتا ہوں ترمیم زیادہ
وہ یوں کہ ترے نام میں یہ آیا ہے دو بار
حرفوں میں پسند آیا مجھے میم زیادہ
ملتا ہے مجھے فیض جو درگاہٍ ادب سے
یاروں میں ہی کر دیتا ہوں تقسیم زیادہ
میں اپنی کہی بات سے واقف تو ہوں لیکن
از بر ہیں زمانے کو مفاہیم زیادہ
تم سے کوٸی پوچھے کہ یہ لہجے میں تمہارے
اب شہد زیادہ ہے کہ ہے نیم زیادہ
عرفان اللہ عرفان