بجھتے ہوئے شعلوں کو تھوڑی سی ہوا دینا
اِک اَشک گرا دینا، اک شمع جلا دینا
سمجھائے گی وہ تم کو باریکیاں اُلفت کی
تم بھی اُسے غالبؔ کا اک شعر سنا دینا
وہ کیسے نہ آئے گی، یہ ہو ہی نہیں سکتا
اک بار ذرا دل سے تم اس کو صدا دینا
ہم بھی تو دوانے ہیں کب عقل کی مانے ہیں
جو چاہو ہمیں کہنا، جو چاہو سزا دینا
گر ہم سے نہ ملنا ہو اور کہہ بھی نہ پاتی ہو
کھڑکی میں دیا رکھنا، پھر اُس کو بجھا دینا
گر سامنے جانا ہو، کچھ اُس کو بتانا ہو
اک نظم سنا دینا، کچھ زخم دکھا دینا
خالد شریف