بس ایک خواب کی صورت کسی حسیں کی طرف
میں آسمان سے آیا تھا کل زمیں کی طرف
یہ بے یقینی کا دریا عبور کرتے ہوئے
مجھے تو لوٹ کے آنا پڑا یقیں کی طرف
بلا رہے تھے منافق بھی دوست بن کے مجھے
بڑھایا ہاتھ نہ میں نے منافقیں کی طرف
کہ اس پہ نام لکھا تھا کسی ستمگر کا
وہ مڑ کے دیکھتا کیسے مری جبیں کی طرف
عجیب لوگ ہیں خود اپنے حال میں خوش ہیں
یہاں پہ دیکھتا کوئی نہیں مکیں کی طرف
وہ آج اپنے کیے پہ بہت ہی نادم یے
اٹھا رہا تھا جو انگلی فلک نشیں کی طرف
حسب نسب سے تو اچھا دکھائی دیتا ہے
کیوں پیش رفت ہے اس کی رضا کمیں کی طرف
حسن رضا