بُرا لگتا ہے کیوں شکوہ ہمارا
نہیں شاید کوئی رشتہ ہمارا
ہمارے ہاتھ کچھ آئے نہ آئے
مگر ہوگا یہی شعبہ ہمارا
کہو تو جھوٹ بھی تھوڑا مِلا دیں
اگر میٹھا نہیں لہجہ ہمارا
طوافِ عشق ہوتا ہے یہیں پر
بہت نزدیک ہے کعبہ ہمارا
تم آؤ تو اِسے چھٹی ملے گی
تھکن سے چُور ہے تکیہ ہمارا
ارے ہم تو محافظ ہیں تمہارے
تمہیں ہے کس لیے خطرہ ہمارا
ہم آئے تھے محبت کی گلی میں
بدل کر رہ گیا نقشہ ہمارا
تمہارے پتھروں کو کیا ہُوا ہے؟
سلامت ہے ابھی شیشہ ہمارا
محمد رضا حیدری