غزل
بکھر بکھر کے جو سمٹی وہ کائنات ہوں میں
مرا ثبات یہی ہے کہ بے ثبات ہوں میں
خدا تو بھول گیا کب کا خلق کر کے مجھے
سحر بھی چھوڑ گئی جس کو ایسی رات ہوں میں
مرے نفس میں ہے پنہاں جو میرا خالق ہے
ورق ورق جو مکمل ہے وہ کتاب ہوں میں
میں اپنی ذات میں یکتا نہیں ہوں دنیا میں
جو سب پہ بیت رہی ہے وہ واردات ہوں میں
مجھے یہ علم نہیں قافلہ رواں ہے کہاں
مگر شریک غم جادۂ حیات ہوں میں
کرامت غوری