غزل
بھرنے کو جو دامن کوئی پھولوں سے چلا ہو
کیا جانئے اس شخص کا کیا حال ہوا ہو
ٹوٹے ہوئے کچھ خواب تھے پیوستۂ تقدیر
کردار میں ان کا کوئی ریزہ نہ چبھا ہو
ایسا بھی ہوا ہے کبھی اس دہر میں لا کر
انسان کی قسمت کو خدا بھول گیا ہو
جس آنکھ نے اس حال کو پہنچایا ہو کیا خوب
یہ حال اسی آنکھ سے دیکھا نہ گیا ہو
کس طرح پھر آمادگیٔ قلب سے ملیے
دکھتے ہوئے احساس کا جب زخم ہرا ہو
بے ربطیٔ انفاس کے دوران تری یاد
یوں جیسے مسیحا کوئی رستے میں ملا ہو
اک بار نسیمؔ ایسی کوئی کیجئے خواہش
جو شوق کے ناکردہ گناہوں کی سزا ہو
وضاحت نسیم