بہت سے ابر چلے آ رہے تھے جھوم کے ساتھ
سو کچھ چراغ جلانے پڑے ، نجوم کے ساتھ
تمہارا ذکر بھی ہے ذکرِ دوستاں میں رقم
یہ بالخصوص جو لکھا ہے بالعموم کے ساتھ
میں خوشبوؤں سے گریزاں ہوں اس لیے کہ کئی
پرانے زخم مہکتے ہیں ، پرفیوم کے ساتھ
جو رفتگاں کو مہارت تھی ، اس لیے تھی ، انہیں
سکھایا جاتا رہا عشق بھی ، علوم کے ساتھ
کہیں کہیں سے تھی زنجیر زنگ آلودہ
پنپ رہی تھی بغاوت بھی کچھ رسوم کے ساتھ
یہ احتیاط ، کنارہ کشی لگی تھی مجھے
میں اسکے ساتھ تھی ، وہ شہر کے ہجوم کے ساتھ
یہ جشنِ ترکِ تعلق ہے ، دیکھنا کبھی ، ہم
تمہارا ہجر مناتے ہیں کتنی دھوم کے ساتھ
وہ ایک چھوٹی خوشی تک نہیں خرید سکے
وہ جن کے پرس بھرے تھے ، بڑی رقوم کے ساتھ
میں نامراد نہیں آئی اس خرابے سے
کہ خاکِ دشت چلی آئی پَیر چوم کے ، ساتھ
کومل جوئیہ